سپریم کورٹ نےلاپتہ افراد کے کیمپ سےعمر ولی کو اٹھائے جانے سے متعلق رپورٹ دوہفتوں میں طلب کرلی،چیف جسٹس نےاٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ ایجنسیوں کو بتادیں کہ کسی شہری کو ماورائے قانون گرفتار نہیں کیا جا سکتا،کسی پر الزام ہو توبھی ایف آئی آر کے اندراج کے بغیر گرفتاری خلاف قانون ہے۔ ايجنسيوں کی تحويل ميں قيديوں کی ہلاکتوں کے کيس کی سماعت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کی۔ سماعت کے دوران آئی جی اسلام آباد بن يامين نے وفاقی دارالحکومت سےلاپتہ ہونے والے سولہ سالہ عمر ولی کو سپریم کورٹ میں پیش کیا۔ آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ عمر ولی لاپتہ افراد کے لواحقين کو کھانا فراہم کرتا تھا اوردس مارچ سے لاپتہ تھا. عمرسے متعلق ايجنسيزسے معلومات دينے کی درخواست کی جس کے بعد وہ واپس آگيا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ابھی طے کرنا باقی ہے کہ لڑکا کس ايجنسی کے پاس تھا. چيف جسٹس نے ريمارکس ديئے کہ بتانا پڑے گا کہ اسلام آباد سے لاپتا ہونيوالا عمرولی کس ايجنسی کی تحویل میں تھا،لا پتہ افراد کی تعداد روز بروز بڑھتی جارہی ہے، اگر کسی نے جرم کا ارتکاب کيا تو قانون کے مطابق اس سے نمٹا جائے. اس موقع پر بازياب ہونے والے عمر ولی کے والد نے عدالت کو بتایا کہ وہ فریاد کرتے رہے جبکہ ان کے سامنےان کے بیٹے کو اٹھالیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈيڑھ سال قبل کینیڈا سے وطن واپس آئے ليکن اب پھر واپس جانيکا سوچ رہے ہيں.عمر ولی نے عدالت ميں بيان ديتے ہوئے کہا کہ اسے چھ روز حراست ميں رکھ کر پوچھ گچھ کی جاتی رہی. سپریم کورٹ نے عدالتی آرڈر میں کہا کہ عدالت متعدد بار قرار دے چکی ہے کہ بغيرمقدمہ درج کيئے حراست غير قانونی ہے، عمرولی کی چھ روزہ حراست کا کوئی جواز نہیں تھا، اٹارنی جنرل تمام ایجنسیوں کو عدالتی حکم پہنچا ديں کہ کسی کو بھی غير قانونی حراست ميں نہ رکھا جائے،۔ جسٹس خلجی عارف نے ریمارکس دیئے کہ ماورائے قانون کسی کارروائی کی اجازت نہیں دے سکتے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد سے عمر ولی کو اٹھائے جانے سے متعلق رپورٹ دوہفتوں میں طلب کرتے ہوئے کیس جزوی طورپر نمٹادیا ۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ضرورت پڑنے پر دوبارہ کیس کو سنیں گے۔