بے نظیر بھٹو کی شہادت کے صدقے اور میاں نواز شریف کے سیاسی تعاون کی بدولت پیپلز پارٹی حقیقتاً زرداری پارٹی نے اپنی حکومت کی پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر لی ہے۔ اس دفعہ پی پی پی حکومت نے پانچ سال کی مدت پوری کرکے پاکستان کو جس تباہی و بربادی کے گڑھے میں پھینک دیا ہے اس کا ازالہ کرنا شاید ہی مستقبل میں ممکن ہو۔پرویز مشرف کا ناوک دشنام جگر کو چیر رہا ہے ”عوام مزید ان جمہوری حکومتوں کا مزہ لیں۔ پانچ سال کیلئے انہیں اور منتخب کریں اور اپنی آئندہ نسلوں کو ان خونخوار بھیڑیوں کے سامنے پھینک دیں تاکہ عوام کا جمہوریت کا شوق بھی پورا ہو جائے اور پاکستان (خاکم بدین) مکمل تباہ و برباد ہو جائے۔“
اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے صحافیوں اور عدلیہ کی جانب سے کی جانیوالی تنقید اور پریشر کو ہمیشہ خندہ پیشانی سے برداشت کیا مگر مجال ہے کبھی اپنی ٹیڑھی چال کو سیدھا کیا ہو اگر ہم اس حکومت کو کوئی کریڈٹ دینا چاہیں تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں اٹھارہویں ترمیم کو منظور کیا اور آخر دورمیں گوادر پورٹ کا انتظام چین کے حوالے کیا اور محض دو اداروں میں کسی حد تک شفافیت کو قائم رکھا بیت المال کا ادارہ جس کے سربراہ درد دل رکھنے والے زمرد خاں ہیں اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جس کی افادیت کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا گیا باقی کسی بھی لحاظ سے دیکھیں گے تو مایوسی کے گہرے بادل آپکے ذہن پر چھا جائینگے اور ڈریں اس وقت سے جب جمہوریت کی برکتوں کے طفیل اور اتحادی سیاست کے چمتکار سے یہ حکمران دوبارہ ہمارے سر پر آئینی طور پر بیٹھ جائینگے اگر حکومت میں پیپلز پارٹی کے دور میں میڈیا آزاد رہا ہے۔ عدالتیں آزادانہ فیصلے دیتی رہی ہیں گوادر پورٹ کا انتظام چین کو مل گیا ہے اور ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہو گیا ہے تو کیا میں بھول جا¶ں کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق 5 سال میں قومی خزانے کو 1800 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 47ویں نمبر سے ترقی کرکے 35ویں نمبر پر آگیا۔ آٹھ ارب روپے کی این آئی سی ایل سکینڈل‘ سٹیل مل میں بیس ارب روپے کی کرپشن‘ حج سکینڈل‘ ایفیڈرین سکینڈل‘ اوگرا‘ سوئی سدرن سوئی نادرن اور نیلم جہلم پراجیکٹس میں اربوں رویوں کے گھپلے کس کے کھاتے میں ہیں۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں سرپٹ افراط زر کے پانچ سالوں میں کنزیومر پرائس انڈکس (CPI) کی شرح اشیاءضرورت کی قیمتوں میں 100 سے 200 فیصد تک اضافہ کیا۔ جہاں سالانہ 630 ارب روپے ریلوے‘ پی آئی اے‘ واپڈا‘ سٹیل مل کے خسارے پر خرچ ہوتے رہے وہیں 430 ارب روپے کے گردشی قرضے نے پاکستان میں بجلی کے بحران کو شدید سے شدید ترین کر دیا رینٹل پاور پراجیکٹس میں 23 ارب روپے کی کرپشن کے باوجود ایک میگا واٹ بھی اضافہ بھی بجلی پیدا نہ ہو سکی۔ عالمی بنک کیمطابق اس دوران سالانہ 796 ارب روپے ٹیکس چوری ہوتا رہا LUMS کی ایک ریسرچ رپورٹ کیمطابق حکومت کو 100 روپے میں سے صرف 38 روپے کی ٹیکس وصولی ہوتی ہے۔ 62 روپے ٹیکس دہندہ مختلف مراعات اور ٹیکس چھپانے کے عوض لے جاتا ہے۔ صرف کرپشن روکنے سے سالانہ 4.10 کھرب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کے ساڑھے سات فیصد پر پہنچ گیا اور معیشت میں شرح نمو جو 2007ءمیں 5.5 فیصد تھی گر 2011-12ءمیں 3.7 فیصد تک آگئی۔ ڈالر کی شرح کے مقابل میں روپے کی قدر 40 فیصد سے زائد کم ہوئی اور جو ڈالر 2008ءمیں 67 روپے کا تھا اب 100 روپے کا ہو چکا ہے۔ اس دوران غیر ملکی قرضے 38 بلین ڈالرز سے بڑھ کر 65 بلین ڈالرز ہو گے اور مجموعی قرضوں کا حجم سٹیٹ بنک کے مطابق 15 ہزار 148 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ جبکہ اس دوران حکمران جماعت سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر قرضے معاف بھی کرتی رہی۔ راجہ پرویز اشرف دو سالوں میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے اعلانات کرتے رہے مگر ان پانچ سالوں میں بجلی گیس کی لوڈشیڈنگ پاکستان کی تاریخ کی بدترین سطح پر پہنچا دی گئی بجلی اور گیس کے اربوں روپوں کے بلوں میں صارفین سے اور چارج کیا گیا۔ اسکے باوجود 20, 20 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ جاری رہی اسکے علاوہ فیول ایڈجسٹمنٹ اور بجلی اور گیس چوری کو ٹرانسمیشن لاسز قرار دے کر اسکا بوجھ بھی عام صارفین پر ڈال دیا گیا۔
2007ءمیں سے لیکر اب تک 9020 ارب روپے کے قرض کا بوجھ قوم پر لاد دیا گیا اور ایک شخص جو اس وقت 37000 روپے کا مقروض تھا اب اس پر 83000 روپے قرض کا بوجھ ہے آج پاکستان میں معاشی نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں ہے اور 2011-2012ءمیں بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا ساڑھے آٹھ فیصد ہے اور جو رواں سالوں میں 10 فیصد تک پہنچ سکتا ہے۔ امین فہیم صاحب کو پتہ ہی نہیں چلا کہ انکے اکا¶نٹس میں 10 کروڑ روپے کیسے آگئے۔ انکی بیٹی کیسے بغیر سی ایس ایس کئے برطانیہ میں پاکستانی سفارت خانے میں سکینڈ سیکرٹری کے عہدے پر فائز ہو گئیں۔ اسکے علاوہ وزیروں اور پارٹی عہدیداروں کی بیگمات‘ بیٹے اور بیٹیاں کس طرح اعلیٰ مناصب پر پہنچ گئیں‘ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی جب جیل میں تھے تو انہوں نے گھڑی فروخت کرکے اپنے بچوں کی فیسیں ادا کی تھیں مگر اپنے دور حکومت میں وہ اور انکے بچے کروڑوں پونڈز کی شاپنگ دنیا کے مہنگے ترین سٹور ہیرڈز سے کرتے تھے اور ایک ایک رات میں مبینہ طور پر کہا جاتا ہے کہ لاکھوں روپے کسینو میں خرچ کر دیتے تھے۔
قارئین اس دوران دہشت گردی کے عفریت اور امریکہ کی ہم پر بالادستی اور دھونس نے خوب اودھم مچائے رکھا۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ ہو یا ایبٹ آباد میں امریکی میریز کا اسامہ بن لادن کی مبینہ رہائش گاہ پر حملہ حکومت قومی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کرنے میں مکمل ناکام رہی تمام اعلیٰ مناصب پر سیاسی اثرو رسوخ اور حکمرانوں کو رشوت کے ذریعے تعیناتیاں ہوتی رہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے اپنے 18 ویں گریڈ میں انکم ٹیکس میں تعینات داماد کو پہلے ای او بی میں 20ویں گریڈ میں پوسٹ کیا پھر 21ویں گریڈ میں اپنے پاس وزیراعظم سیکرٹریٹ میں جائنٹ سیکرٹری بنا دیا اور آج یہ ہونہار راجہ عظیم ورلڈ بنک میں انتہائی خطیر مشاہدے پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر براجمان ہے اور اسکے ساتھ سی ایس ایس کرنے والے انکم ٹیکس میں ابھی تک 18ویں گریڈ میں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر فائز ہے۔ راجہ صاحب کے دوسرے داماد بھی پاک چائنہ انوسٹمنٹ کمپنی میں اپنی قابلیت کی بنا پر اعلیٰ منصب پر پہنچ گئے ہیں۔ ایف بی آر میں موجودہ چیئرمین کیسے تعینات ہوا اور اس کا ایجنڈہ کیا ہے واقفان حال جانتے ہیں۔ اگر نیب کے چیئرمین ایف آئی اے کے سربراہ اور ایف بی آر کے سربراہ کو نگران حکومت کے دور میں بدل دیا جائے اور صرف ان عہدوں پر تین ایماندار محب وطن اور فرض شناس افسران کو تعینات کر دیا جائے اور سپریم کورٹ تمام رکے ہوئے کیسوں کے فیصلے نگران حکومت کے دور میں کر دے اور ان تینوں اداروں کے سربراہاں ان پر فوری عملدرآمد کرا دیں تو پاکستان میں بہتری کا نیا دور شروع ہو جائیگا ۔