خبر چھپی ہے کہ پنجاب زراعت اینڈ میٹ (گوشت) کمپنی گوجرانوالہ ڈویژن نے ”کٹا بچاﺅ“ پروگرام کے تحت رجسٹرڈ ہونیوالے مویشی پال سکیم کے 622 کسانوں میں انیس ملین روپے کے امدادی چیک تقسیم کئے ہیں۔ ظاہر ہے یہ سب کچھ گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے کیا گیا ہے۔ انگریزوں کے دور میں کسانوں کو اچھی نسل کے گھوڑے پالنے پر ”گھوڑی پال سکیم“ کے تحت زمینیں (مربعے) الاٹ کی جاتی تھیں تاکہ ملک میں اچھی نسل کے گھوڑوں کی پیداوار بڑھائی جا سکے۔ دونوں قسم کی سکیموں سے حکومتی ترجیحات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ انگریزوں نے گھوڑوں پر توجہ دی ہم ”کٹے“ بچانے اور گوشت خوری کا سامان پیدا کرنے کی فکر میں ہیں۔ ”کٹا بچاﺅ“ مہم یا پروگرام سے ”کٹوں“ سے محبت میں اضافہ ہو گا۔ عموماً بھینسوں کا کاروبار کرنیوالے یا پالنے والے کٹی کی پیدائش پر زیادہ خوش ہوتے ہیں لیکن بھینس اگر کٹا پیدا کرے تو سال کے اندر اندر کٹا کو بیچ دیا جاتا ہے۔ کٹے کے گوشت کیلئے اسے فوراً چھری کے نیچے لے آتا ہے اور قوم تو کٹے کا گوشت بھی نہایت رغبت سے کھاتی ہے۔ کٹا بچاﺅ مہم سے کسان اب کٹوں سے سوتیلی ماں والا سلوک روا رکھنے سے باز رہیں گے۔ حضرت انسان فطرتاً حریص بھی ہے۔ لوگ بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔ کسی گھر میں لڑکی پیدا ہو جائے تو ایک سوگ کی سی فضا قائم ہو جاتی ہے البتہ بیٹا پیدا ہونے پر خوشیوں کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔ بھانویں بیٹا بڑا ہو کر نکھٹو کیوں نہ نکلے۔ لیکن ہے ناں عجیب بات بیٹے کی ولادت پر خوش ہوتے ہیں اور بھینس اگر کٹا دے تو ناگواری کا اظہار کرتے ہیں البتہ بھینس کی کٹی کو مستقبل کی بھینس سمجھ کر زیادہ خوش ہوتے ہیں۔ کٹا بچاﺅ پروگرام کے ذریعے حکومت نے پہلی بار کٹوں کو سنجیدگی سے لیا ہے ورنہ کٹا تو ہمارے محاوروں اور بول چال ہی میں زیادہ توجہ پاتا ہے۔ شیخ رشید اپنی گفتگو میں زیادہ کٹا کھولنے، کا ذکر کرتے رہتے ہیں اور اکثر تو نیا کٹا کھولنے کی بات کرتے ہیں۔ یہ تو معلوم نہیں کٹا کھولنے کا محاورہ کب اور کیسے وجود میں آیا البتہ ہمیں یہ پتہ ہے کہ کٹا اگر قصائیوں کی چھری سے بچ جائے تو بھینسا یا سانڈھ بن جاتا ہے جسے پنجابی میں ”جَھوٹا“ بھی کہتے ہیں اور پنجابی کے محاورے میں جھوٹا بھی استعمال ہوتا ہے اور جھوٹے والے گھر سے لسی مانگنے کو حماقت قرار دیا جاتا ہے۔ اگلے روز ہمارا محلے دار رفیق درزی سخت غصے میں تھا کہ مسلم لیگ ن نے مولانا فضل الرحمن سے اتحاد کیوں کیا ہے؟ رفیق درزی نے ہی مسلم لیگ ن کے اس فیصلے پر جھوٹا استعمال کیا اور کہا کہ مسلم لیگ نون والے جھوٹے والے گھر سے لسی مانگنے چل دئیے ہیں۔ بھلا مولانا فضل الرحمن سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے مسلم لیگ ن کو کیا فائدہ ہو گا۔ مولانا کی سیاسی ساکھ تو موجود ہے مگر جماعت کہیں نظر نہیں آتی۔ رفیق درزی عمران خان پر بھی خاصا سیخ پا تھا کہ جس نے اپنی پارٹی میں باقاعدہ الیکشن کرا کے سیاسی جماعتوں کیلئے ایک نیا کٹا کھول دیا ہے۔ اب مسلم لیگ ن یا پاکستان پیپلز پارٹی اپنے جماعتی انتخابات کیسے کرا سکتے ہیں؟ رفیق درزی نے بعدازاں ہنستے ہوئے کہا ویسے اگر مسلم لیگ ن کے تحت کبھی میں بھی عہدیدار بن جاﺅں تو مرکزی اجلاسوں میں میاں صاحبان پر کھل کر تنقید کروں مگر میری اتنی قسمت کہاں کہ کبھی مسلم لیگ ن کا سٹی الیکشن بھی لڑ سکوں کیونکہ اس کیلئے الیکشن ہونا ضروری ہے۔ ہم تو محض نعرے لگانے والے پیدائشی مسلم لیگی ہیں۔ میں نے رفیق سے علامہ طاہرالقادری کی کینیڈا واپسی اور پھر پاکستان آمد کے حوالے سے بات کی تو جھٹ بولا طاہر القادری نے بھی تو 62,63 کا کٹا کھول کر الیکشن کمشن کو نئی ”بھمل بھوسیوں“ میں ڈال دیا ہے۔ بھلے انکی باتیں بجا سہی مگر کردار بھی کوئی چیز ہوتا ہے۔ خود ریاست بچانے کا نعرہ لگانے والا کنٹینر مذاکرات کے بعد ٹھس ہو گیا ہے۔ اب تو قوم پیر پگاڑا کی مسلم لیگوں کو اکٹھا کرنے کی باتوں پر خوش نظر آ رہی ہے۔ خدا کرے ایسا ہو جائے اور صرف اور صرف ایک متحدہ مسلم لیگ دکھائی دے تاکہ پاکستان بچاﺅ پر عمل شروع ہو جائے۔