نرسوں پر ”نتھ فورس“ کا تشدد اور وزیر اعلیٰ کا ایکشن

خدمت، محبت، الفت، شفقت اور عقیدت جیسے مقدس جذبات و احساسات کسی مورت کا روپ دھار لیں اور اس صورت میں شہد جیسی مٹھاس اور چنبیلی جیسی خوشبو رچ بس جائے تو اس کا وجود تخلیق پاتا ہے زخمیوں کی مرہم پٹی، مریضوں کی دل جوئی اور بیماروں کی مسیحائی کرنا اس کا شیوہ ہے۔ اس شیوہ سے رب کائنات کی قربت کا میوہ ملتا ہے اس میوہ کا مزہ سب سے سوا ہے اس سے دنیا بھی بنتی ہے اور آخرت بھی سنورتی ہے۔ مریض کالا ہو یا گورا، خوبصورت ہو یا بدشکل، مسلمان ہو یا کافر.... اس کے کوڑھ زدہ جسم پر کیڑے رینگ رہے ہوں، تیزاب میں نہلائی ہڈیوں کا ڈھانچہ بنی بے بس دوشیزہ ہو یا کسی موذی وبائی مرض میں مبتلا ناتواں بوڑھا.... جس کی کھُوں....کھُوں....اور ہائے....ہائے سے تنگ آکر اس کے پیارے بھی اس سے منہ موڑ چکے ہوں.... مگر اسے ان سے گھن نہیں آتی۔ اسے ان کی شکل و صورت اور حسب و نسب سے کوئی غرض و غایت نہیں۔ بلاامتیاز سب کی خدمت اور مسیحائی کرنا اس کا شعار ہے یہ اللہ تعالیٰ کی ایسی مخلوق ہے جو اپنے دُکھ سکھ کی پروا کئے بغیر دکھی انسانیت کی خدمت پر مامور رہتی ہے اس کا.... سفید لباس بھی امن، تقدس اور پاکیزگی کی علامت ہے!
فرشتہ سیرت اس مخلوق کو ہم ”نرس“ کے نام سے جانتے اور پہنچاتے ہیں قوم کی یہ بیٹیاں اس وقت بے بسی اور بے کسی کی تصاویر بنی سر بازار رسوا ہورہی ہیں انہوں نے اپنے مطالبات کے حق میں پنجاب اسمبلی کے رُوبرُو کئی روزتک دھرنا دےئے رکھا۔ ہزاروں نرسوں کا مطالبہ تھا کہ انہیں ایڈہاک کی بجائے مستقل بنیادوں پر نوکریاں فراہم کی جائیں دھرنے کے چھٹے روز یہاں اس وقت انتہائی ناخوشگوار حالات پیدا ہوگئے جب پولیس ان عفت مآب بیٹیوں پر پل پڑی۔ گھونسوں ٹھڈوں کے ساتھ ان پر ڈنڈوں کی بارش کردی۔ جس سے کئی نرسیں بے ہوش ہوگئیں ۔نرسوں کی آہ و بکا، سسکیاں اور چیخیں دل د ہلا رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ پولیس یہاں دشمن کا کوئی قلعہ فتح کرنے آئی ہے۔ کالی وردی والوں کی ”نتھ فورس“ نے بے چاری نرسوں کی ایسی درگت بنائی جس نے بھٹو دور کے مظالم کی یاد تازہ کردی جب الیکشن میں دھاندلی پر ”بھٹو شاہی“ کے خلاف ساری قوم سڑکوں پر نکل آئی تھی قومی اتحاد کی اس تحریک میں خواتین بھی پیش پیش تھیں۔ ماﺅں، بہنوں اور بیٹیوں نے بھی اپنے آنچل کو پرچم بنالیا تھا اور وہ ظلم و جبر کے خلاف پرامن احتجاج کررہی تھیں۔ خواتین کے ایک جلوس پر بھٹو کے گورنر کھر کی ”نتھ فورس“ نے یلغار کردی۔ آنسو گیس کی بھرمار میں نتھ فورس نے ڈھٹائی کے ساتھ خواتین کی دھنائی کی۔ ظلم و بربریت کی یہ داستان ہماری قومی تاریخ کا ایک کرب ناک باب ہے۔
اس طرح کے درد ناک مناظر یہاں بھی دیکھنے کو آئے کہ لیڈی پولیس کی ایک صحت مند عورت نے بے چاری نرسوں پرکو آڑے ہاتھوں لیا۔ایسا لگتا ہے کہ یہ ٹارزن نما عورت کبھی بیمار شمار نہیں ہوئی، نہ ہی اس نے کبھی کسی ہسپتال کا منہ دیکھا ہے اور نہ ہی یہ کبھی کسی نرس کی خدمت سے فیض یاب ہوئی ہے اسے کسی ماں نے جنم نہیں دیا اور نہ ہی یہ خود کسی بیٹی یا بیٹے کی ماں ہے۔ اس کی کوئی ماں جائی اور ماں جایا بھی نہیں اور نا ہی کوئی بہن بھرا ہے۔ اگر اس کے کوئی رشتے ناطے ہوتے تو اسے کبھی نہ کبھی کسی ہسپتال اور اس کی نرس سے پالا پڑا ہوتا اوروہ بھی نرس کی عظمت کی معترف ہوتی۔بھلا ہو وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا، انہوں نے نرسوں پر پولیس کے تشدد کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس کے ذمہ دار تمام پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا ہے، جن میں لیڈی پولیس کی وہ ظالم اہلکار بھی شامل ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے عدالتی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے اور اس کے ساتھ نرسوں کے مسائل کے حل کیلئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے۔ اسوقت مجھے منٹو کی ایک کہانی یاد آرہی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت مال روڈ پر نصب ”سرگنگارام“ کے مجسمہ پر سرپھروں کے ایک ہجوم نے ہلہ بول دیا۔ وہ دکھی انسانیت کے مسیحا کے مجسمہ پر پتھراﺅ کرکے اس کی توڑ پھوڑ کررہے تھے یہاں پولیس آگئی، اس ہنگامہ آرائی میں شامل ایک شخص بری طرح زخمی ہوگیا۔ لوگ اسے علاج معالجہ کیلئے اسی سرگنگارام ہسپتال لے آئے۔ جس کے مجسمہ پر وہ پتھراﺅ کررہا تھا۔ یہ ہوتی ہے مسیحائی....

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...