”ہجر، اداسی اور وہ........“

زاہدہ لطیف
اردو شاعری میں ”ہجر اور اداسی“ کا ذکر آتے ہی جو نام ہمارے ذہن میں ابھرتا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے کیونکہ ایسے عظیم شعرا کسی تعارف کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ خراج عقیدت کے حق دار ہوتے ہیں اور پھر یہ حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ”ناصر کاظمی“ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے اردو غزل کو ایک نیا لہجہ اور سوچ دی تھی اور اداس شاعری میں بھی ایک رونق کا سماں باندھ دیا تھا۔ ان کے ہاں ”تنہائی“ ”کبھی ”تنہا“ نہیں رہی۔ بلکہ ”خود کلامی“ اس کی ہم جولی رہی ہے۔
تو جو اتنا اداس ہے ناصر
تجھے کیا ہو گیا، بتا تو سہی
ان کی شاعری میں اداسی کی گہری چھاپ کا سبب ان کی زندگی میں پے در پے رونما ہونے والے ایسے حادثات تھے، جنہوں نے ہمیشہ انہیں مضطرب رکھا۔ ایک مستقل اداسی، تنہائی، مالی مشکلات، ادھوری تعلیم، ہجرت، دوست احباب سے جدائی، احساس محرومی اور ناکامی عشق نے ہمیشہ ان کی زندگی میں ہلچل مچائے رکھی۔ انہی حالات کے پیش نظر ہی انہوں نے کہا تھا:
تمام عمر یونہی ہم نے دکھا اٹھایا ہے
زیادہ خرچ کیا اور کم کمایا ہے
ناصر کے مزاج کی یہی کیفیات اور زندگی کے اتار چڑھاﺅ وقت کے ساتھ ساتھ کندن بن کر ان کی شاعری میں ڈھلتے گئے اور اردو شاعری پر گہرے نشانات ثبت کر گئے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کی غزل کا حسن مزید سے مزید نکھرتا گیا۔ گلنار آفرین کا یہ شعر ان کی شخصیت کا نہایت خوبصورت سے احاطہ کرتا ہے:
دل شاعر کو عجب دی ہے سزا فطرت نے
جل کے احساس کی بھٹی میں نکھرنا ہو گا
نصر کی اسی ”اداسی“ اور ”غم انگیزی“ کی بدولت کسی نے ان کو میر تقی میر کی سی ”دردمندی“ پیدا کرنے والا شاعر کہا ہے تو کسی نے ”یاد“ اور ”اداسی“ کو ان کی شاعری کی روح قرار دیا ہے۔ اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ خود ناصر کاظمی نے بھی اپنے آپ کو ایک ”اداس“ اور ”بے نوا اجنبی“ کہہ کر متعارف کروایا ہے۔ گویا ”اداسی“ اور ”ناصر کاظمی“ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم تصور کئے گئے ہیں۔ بقول ناصر:
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
یہ کھلی حقیقت ہے کہ انسان جس ماحول میں رہتا ہے وہ ماحول اس کی شخصیت پر بہت اثرانداز ہوتا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ناصر کاظمی نے جس ماحول میں آنکھ کھولی اور پروان چڑھے تھے۔ اس کی تلخ حقیقتوں کے زیراثر انہوں نے ہمیشہ اداسیوں کو ہی لفظوں میں پرویا۔ چونکہ یہ اداسی ان کے اندر رچ بس چکی تھی۔ اس لئے انہیں اپنے ارد گرد کا پورا ماحول ہی رنج و الم میں ڈوبا دکھائی دیتا تھا:
دل تو میرا اداس ہے ناصر
شہر کیوں سائیں سائیں کرتا ہے
ناصر کی اداسی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ابتدائی عمر میں عشق کی ناکامی بھی تھی۔ جس نے ان کے دل کی دنیا میں ایک قیامت برپا کر دی تھی۔ ان کے تمام خواب چکنا چور ہو گئے اور انہیں اپنی زندگی ویران لگنے لگی۔ اس کا ذکر انہوں نے خود ان الفاظ میں کیا ہے:
”یوں تو کھلونے ٹوٹ جانے کا احساس نہیں ہوتا.... لیکن اب ایک ایسا کھلونا ٹوٹا ہے جو کہیں نہیں مل سکتا۔“
یہی وجہ تھی کہ ان کی اپنی زندگی کے سبھی رنگ پھیکے لگنے تھے اور یہ ”کسک“ ان کے دل میں ”صندل“ کی طرح ہمیشہ سلگتی رہی جس کا اندازہ ان کے اس شعر سے بخوبی ہوتا ہے:
دل نے خیال ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
ہجر کے اس صدمے نے انہیں بے حد ”حساس“ اور ”غم پسند“ بنا دیا تھا۔ ابھی یہ زخم تازہ تھا کہ تقسیم ملک پر انہیں اپنی جائے پیدائش سے ہمیشہ کے لئے ہجرت کر کے پاکستان آنا پڑا۔ تقسیم کے عمل نے ان کی روح کو بری طرح زخمی اور لہولہان کر دیا اور ان کے اندر ہمیشہ کے لئے تلخی بھر دی وہ تڑپ کر کہہ اٹھے:
انہیں صدیوں نہ بھولے گا زمانہ
یہاں جو حادثے کل ہو گئے ہیں
انہوں نے انسانیت کو خون کی ہولی کھیلتے دیکھا، عصمتوں کو سرعام نیلام ہوتے دیکھا، رشتوں اور ناتوں کو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے دیکھا تو ان کا دل خون کے آنسو رو اٹھا اور وہ خدا سے فریاد کرنے پر مجبور ہو گئے:
او میرے مصروف خدا
اپنی دنیا دیکھ ذرا
آنکھوں کے سامنے سجنے والے ظلم و بربریت کے اس بازار پر وہ بے حس یا کنارہ کش ہو کر نہیں بیٹھے بلکہ یہ ظلم اور درد انہیں اپنے اندر اترتا ہوا محسوس ہوا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ شاعر صرف اپنی ذات کے بارے میں نہیں سوچتا بلکہ وہ پوری انسانیت کا شاعر ہوتا ہے اور دوسروں کے درد کو اپنا درد سمجھنا ہی شاعر کا اصل کام ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے ان تلخ حقائق اور رنج و الم کو شعری قالب میں کچھ یوں ڈھالا کہ وہ اردو شاعری میں ایک زندہ مثال بن گئے:
شہر در شہر گھر جلائے گئے
یوں بھی جشن طرب منائے گئے
اک طرف جھوم کے بہار آئی
اک طرف آشیاں جلائے گئے
کیا کہوں کس طرح سربازار
عصمتوں کے دیے بجھائے گئے
وقت کے ساتھ ہم بھی اے ناصر
خاروخش کی طرح بہائے گئے
معاشرے کے رویوں نے انہیں اندر ہی اندر سلگتے رہنے پر مجبور کر دیا تھا۔ ابھی یہ دلخراش حقیقت ہی بھولنے نہ پائے تھے کہ سقوط ڈھاکہ کے سانحے نے انہیں مزید کھوکھلا کر دیا۔ وہ بے بسی کی تصویر بن کے رہ گئے:
اٹھ گئے کیسے کیسے پیارے لوگ
ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش
اس بے حسی اور مفاد پرستی کو انہوں نے بڑے کرب سے کچھ یوں بیان کیا ہے:
چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
ناصر کاظمی کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا تھا کہ وہ یاد ماضی میں ہمیشہ مقید رہے۔ دوست احباب کی جدائی انہیں آزردہ رکھتی۔ ان کی شاعری میں پرانی یادوں اور دوستوں کا ایک خاص مقام ہے جو انہیں اپنے دوسرے ہم عصر شعراءمیں ممتاز اور نمایاں کرتا ہے۔ وہ اپنی ان دوستیوں کو زندگی کی آخری سانس تک فراموش نہ کر سکے:
دل ویراں میں دوستوں کی یاد
جیسے جگنو ہوں داغ میں گل کے
ایک اور جگہ دیکھ یوں بیان کرتے ہیں:
جب بھی نئے سفر پر جاتا ہوں ناصر
پچھلے سفر کے ساتھی دھیان میں آتے ہیں
ناصر کاظمی اس قدر ”غم پسندی“ کا شکار ہو چکے تھے کہ نئی رتوں میں بھی پرانی یادوں کا میلہ لگائے رکھتے۔ کئی موسم آئے اور چلے گئے مگر ان کے اندر ایک ہی موسم ٹھہرا رہا۔ اداسی نے ان کے اندر ایسے ڈیرے ڈال رکھے تھے جو کوچ کر جانے کا نام نہ لیتے تھے۔ وہ اپنی اسی ترنگ میں پکارتے:
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرس رس کی بوند پڑی تم یاد آئے
پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا، بجلی چمکی، تم یاد آئے
اداسی اگرچہ ناصر کے اندر اپنے پنجے گاڑے بیٹھی تھی مگر اس اداسی نے کبھی ان پر مایوسی طاری نہیں ہونے دی بلکہ وہ ہمیشہ امید کی کرن بن کر جگمگاتی رہی ہے۔ انہی کے بقول:
مایوس نہ ہو تو اداس راہی
پھر آئے گا دور صبح گاہی
چنانچہ ناصر کاظمی کی زندگی میں رہنما ہونے والے پے در پے حادثات ہی وہ نمایاں اسباب تھے جنہوں نے انہیں درد سے آشنا کیا اور ان کے فن کو لازوال حیثیت بخشی اور پھر اسی درد نے انہیں بستر مرگ پر بھی پہنچا دیا۔ وہ خود سے گویا ہوئے:
رنگ پیلا ہے تیرا کیوں ناصر
تجھے کیا رنج کھائے جاتا ہے
اور بلآخر اداسی کے انہی لمحات میں وہ زندگی کی بازی ہار گئے اور اپنے پیچھے اداسی کی وہ انمٹ داستان چھوڑ گئے جو ان کی شاعری میں ہمیشہ زندہ رہے گی اور ہر دور میں ان کی کمی کو محسوس کیا جاتا رہے گا:
کہاں ہے وہ اجنبی مسافر
کہاں گیا وہ اداس شاعر

ای پیپر دی نیشن