بی بی پاک دامن توسیعی منصوبہ… احتیاط کی ضرورت

پنجاب پاکستان کا واحد صوبہ ہے جو موجودہ بدامنی اور دہشت گردی کے دور میں امن، ترقی اور نسبتاً خوشحالی کا منظر پیش کر رہا ہے۔ یہ امن دشمن کی آنکھ کا کانٹا بن گیا ہے جو پنجاب کو حیلے بہانے بدامنی کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ کئی سال سے پنجاب میں جو خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی انتظامی بصیرت اور سیاسی فراست پر مبنی‘ حکمت عملی سے ٹلتے رہے ہیں مگر اس بار دشمن کا وار کڑا اور شدید ہے جس کا فوری سدباب  ضروری ہے وگرنہ بدامنی کی خواہاں قومیں پنجاب کو طویل خونریزی کی آگ میں جھونک دیں گی جس میں مختلف سیاسی و مذہبی حریف اور نادان حلیف قوتوں کو گل کھیلنے کا موقع ملے گا۔ لاہور شہر کی گنجان آبادی کے وسط میں ’’بی بی پاک دامن توسیعی منصوبہ فساد کی سلگتی چنگاری ہے جو کسی وقت بھی نہ صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان کو لپیٹ میں لے سکتا ہے لہذا مذکورہ منصوبے کی غیر حقیقت پسندانہ توسیع سے لاکھوں متاثرین کا وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف سے مطالبہ ہے کہ مذکورہ منصوبے کو فوری طور  پر ختم کیا جائے اور منصوبے کو عملی جامہ پہنانے والی سٹیرنگ کمیٹی کو تحلیل کیا جائے۔ معاملہ حساس اور نازک ہے لہٰذا التوا، تاخیر اور تاویل خطرناک ہو سکتی ہے۔
مذکورہ منصوبہ، وفاقی، صوبائی، اور محکمہ اوقاف پنجاب کی مشترکہ  کاوش ہے جس کا مقصد عالمی مذہبی سیاحت Religious Tourism ہے کو فروغ دینا ہے منصوبے کی منظوری زرداری دور میں ہوئی جس کا نوٹیفکیشن 24اپریل 2012ء میں ہوا۔ توسیعی  اخراجات کا 60% وفاق 30%  پنجاب اور 10% محکمہ اوقاف پنجاب ادا کرے گا۔ منصوبہ رقبے اور تعمیر کے لحاظ سے اتنا وسیع ہے کہ شاید جنوبی  ایشیا برصغیر میں اس کی نظیر نہ ہو مزار کی توسیع ڈیورنڈ روڈ یعنی کوئین میری سکول اور کالج تک ہے منصوبے میں دلچسپی رکھنے والی قوتوں  نے بی بی پاک دامن ٹرسٹ بنا رکھا ہے اور توسیعی تفصیلات کو 4حصوں میں تقسیم کر کے انٹرنیٹ میں ڈال رکھا ہے زرداری دور میں مذکورہ منصوبے کی تیاری او منظوری راز رکھی گئی مگر اب یہ راز راز نہیں کیونکہ سروے ٹیمیں علاقے کا دورہ کر رہی ہیں اور متعلقہ قوتوں کو منصوبے پر کام کرنے کی جلدی ہے۔ محترمہ عاصمہ ممدوٹ ایم این اے نے 30جنوری 2014ء کو وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے ملاقات کی اور 3جنوری 2014ء کو  سٹیرنگ کمیٹی کے اراکین کا نوٹیفکیشن ہو گیا۔ کمیٹی کے چیئرمین صوبائی وزیر اوقاف میاں عطا محمد مانیکا، قومی اسمبلی کے سپیکر ایاز صادق یا ان کا نمائندہ، عاصمہ ممدوٹ، محسن لطیف (متعلقہ ایم پی اے )، سید ابرار حسین شاہ سابق ایم پی اے (ننکانہ صاحب) ، سابق جج سید سائر علی، سید اسد علی، ابوالعلائی، ڈاکٹر سید غضنفر مہدی، سید زہراہ حسنین اور متعلقہ  سرکاری اراکین وغیرہ ہیں۔ منصوبے کی تکمیل کیلئے ہزاروں گھر اور لاکھوں کی آبادی بے گھر ہو گی۔ منصوے کی زد میں کئی مساجد، مدارس، اور قبرستان آئیں گے جبکہ ایاز صادق اور محسن لطیف کے بزرگ بھی مذکورہ قبرستان میں مدفون ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ متنازع مزار کی توسیع کیلئے لاکھوں زندہ انسانوں کے گھروں کو مسمار کرنا  غیر جمہوری، غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر انسانی عمل ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ بی بی پاک دامن کے مزار کا موجودہ رقبہ بھی کبھی مزار کا حصہ نہیں رہا اردگرد کے آباد گھروں کو برباد کر کے بے نظیر کو وسعت دی جائے نیز عدالت کے فیصلے اور محکمہ اوقاف کی تحقیق کے مطابق بی بی پاک دامن مغلیہ دور  کے ایک سنی بزرگ کی نیک صاحبزادیاں ہیں یہ بزرگ مٹی کے برتن بناتے تھے مزار کے حجاور بھی مذکورہ سنی افراد ہیں آج مذکورہ مزار کو حضرت علیؓ کی صاحبزادیاں قرار دے کر فساد کی بنیاد بنایا جا رہا ہے راقم کی شریف برادران سے گزارش ہے کہ مذکورہ  منصوبے  تاریخی اور زمینی حقائق  پر از سر نو جائزہ لیا جائے۔ سٹیرنگ کمیٹی فوری طور تحلیل کی جائے اور اگر مزار کی توسیع اور تعظیم کرنا ہے نواز شریف کے لئے موجودہ راستہ کو مزید وسیع اور کشادہ کر دیں راقم کی محترم ایاز صادق، حمزہ شہباز اور محسن لطیف سے بھی گزارش ہے کہ وہ شہر کے امن کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔ کیونکہ فساد کو نہ بولنے سے روکنا آسان اور فساد کو سنبھالنا مشکل ہوتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن