”اے مُحبّ وطن طالبانو!“

 خواجہ محمد آصف پورے پاکستان کے وزیرِ دفاع ہیں لیکن کیا قسِمت لے کر آئے ہیں کہ اُن کے دفاع میں صِرف پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ خان ہی بولے ہیں۔ خواجہ صاحب نے تو اپنی معلومات کی بنیاد پر صِرف اتنا ہی کہا تھا کہ ”طالبان کی نامزد کمیٹی کی طرف سے جن 300 غیر عسکریت پسند بوڑھوں، عورتوں اور بچّوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اُن میں سے کوئی بھی سیکورٹی فورسز کی قید میں نہیںہے“ اِس پر کالعدم تحریکِ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے بُرا منایا اور خواجہ صاحب پر الزام داغ دِیا کہ ”خواجہ محمد آصف نہ جانے کِن قوّتوّں کے اشارے پر مذاکرات کو داﺅ پر لگانا چاہتے ہیں۔ انہیں خُفیہ حراستی مراکز کی اصل تعداد اور اُن کے مقامات کا علِم نہیں تو اُن میں قید کئے جانے والے لوگوں کا علِم کیسے ہو گا؟“۔ مسٹر شاہد اللہ شاہد نے یہ دعویٰ بھی کِیا کہ ” فاٹا‘ بلوچستان‘ خیبر بختونخوا اور مُلک کے ہر حصّے میں سینکڑوں حراستی مراکز ہیں“۔
طالبان کمیٹی کے ارکان مولانا سمیع اُلحق‘ مولانا یوسف شاہ اور پروفیسر محمد ابراہیم الگ الگ بولے ہیں۔ وہ اپنے مو¿کلِین (طالبان) کی اچھی وکالت کر رہے ہیں۔ بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہُوئے مولانا سمیع اُلحق نے کہا ”بہت سی جگہوں پر پکڑ دھکڑ جاری ہے۔ فوج‘ ایف سی اور قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کے ناکے ہیں۔ طالبان آزادی سے نقل و حرکت نہیں کر سکتے۔ طالبان کے کئی سرکردہ رکن زیرِ زمین ہیں اور گرفتاریوں کے ڈر سے منظرِ عام پر نہیں آ سکتے۔ طالبان نے مذاکرات کے لئے "
" Free Peace Zone " کا مطالبہ کِیا ہے۔ جہاں وہ بغیر کسی خطرے کے حکومت سے مذاکرات کے لئے آجا سکیں۔ مذاکرات سے قبل طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کِیا ہے“۔
مولانا سمیع اُلحق کا یہ اندازِ گفتگو طالبان کے لئے اُن کی ”شفقتِ پدری“ کا مظہر ہے۔ موصوف یہ شرط اپنی طرف سے پیش کر چکے ہیں کہ ”حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات برابر کی سطح پر ہونا چاہیں“۔ مولانا صاحب کے یہ فرمودات بھی آن ریکارڈ ہیں کہ ”حکومت نے مذاکرات میں سنجیدگی اختیار نہ کی تو اُسے پچھتانا ہو گا“۔ اور یہ کہ ”طالبان کے خلاف فوجی آپریشن ہُوا تو 10 سال میں بھی کامیاب نہیں ہو گا اور بہت زیادہ خون خرابہ ہو گا“۔ 31 مارچ کو طالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لئے جنگ بندی کی مُدّت ختم ہو جائے گی۔ 19 دِن گزر گئے ہیں مذاکرات کب شروع ہوں گے۔ ابھی تو ”رادھا“ کے ناچنے کے لئے 9 من تیل کا انتظام کرنے کی شرط پورا کرنے کا مطالبہ ہے۔ یہ طالبان تو”مُطالبان“ بنتے جا رہے ہیں۔ 19 دِنوں میں دہشت گردی کی جتنی بھی وارداتیںہوئیں طالبان کے ”مذاکراتی گروپ“ نے اُن سے لاتعلقی کا اعلان کِیا اور وفاقی حکومت نے ”خلوص یا سادگی“ سے اُس پر یقین بھی کر لِیا۔
پروفیسر محمد ابراہیم کے ”حسنِ طلب“ کو بھی دادا دینا ہو گی۔ طالبان کے لئے فری پیِس زون کے مطالبے کی وضاحت کرتے ہُوئے فرماتے ہیں ”اگر پاکستان کی مسلّح افواج کو پورا محسود علاقہ خالی کرنے میں مُشکلات ہُوں تو صِرف دو تحصِلیں ”مکِین اور لدّھا“ خالی کر دی جائیں تو بھی معاملہ حل ہو سکتا ہے“۔ مزید فرمایا کہ ”ہماری خواہش ہے کہ ”حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات اِس انداز میں کامیابی سے ہم کنار ہوں کہ دونوں طرف سے " win - win " کی صورت ہو!“ یعنی ایک فلمی گیت کے مُکھڑے کی طرح کہ۔
”دِل لے کر تمہی جِیتے دِل دے کی ہمہی ہارے!“
مولانا سمیع اُلحق نے تو مذاکرات ”برابرکی سطح پر“ کرنے کا مطالبہ کِیا تھا اور پروفیسر محمد ابراہیم مذاکرات کی کامیابی میں دونوں فریقوں کی جِیت کے خواہشمند ہیں۔ کسی بھی کھیل میں دونوں ٹیموںکا مقابلہ برابر ٹھہرایا جائے تو کہا جاتا ہے کہ " Match Draw " ہو گیا۔ سوال یہ ہے کہ طالبان کی خواہش کے مطابق ریاستِ پاکستان انہیں کُھل کھیلنے کے لئے‘ ارضِ پاک کی دو تحصیلوں کا قبضہ کیوں دے دے؟۔ کیا (قائداعظم کی یادگار مسلم لیگ (ن) کے منتخب وزیرِاعظم میاں نواز شریف تحریکِ پاکستان کے مخالفوں کی صُلبی اور معنوی اولاد کو یہ رعایت دینے کا حوصلہ کر سکیں گے؟۔ فی الحال طالبان (نہ جانے کِس مصلحت کے تحت) علاّمہ اقبال اور قائدِاعظم کے پاکستان میں ”اپنی مرضی کی شریعت“ نافذ کرنے کے مطالبے پر زور نہیں دے رہے‘ لیکن خودکُش حملوں اور دہشت گردی کے دوسرے طریقوں سے انہوں نے پاک فوج کے 8 ہزار افسروں اور جوانوں سمیت 50 ہزار بے گناہ اور معصوم شہریوں کو جِس بے رحمی سے قتل کِیا ہے، کیا اُن سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ حکومتِ پاکستان سے محض ”زرِ تلافی“ لے کر آرام سے مسجدوں میں بیٹھ کر باقی عُمر یادِ الٰہی میں گُزار دیں گے؟۔
وزیرِاعظم نواز شریف نے اچھا کِیا کہ پاک فوج کو امتحان میں نہیں ڈالا۔ اگر فوج کا کوئی نمائندہ مذاکرات کی میز پر طالبان کے ساتھ بیٹھتا تو کیا محسوس کرتا؟۔ وزیرِاعظم نواز شریف اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے اور کئی دوسرے مواقع پر اعلان کر چکے ہیں کہ ”طالبان سے اُس وقت مذاکرات ہوں گے جب وہ ہتھیار ڈال دیں گے اور وہ پاکستان کے آئین کو تسلیم کر لیں گے؟۔“ فی الحال طالبان نے ہتھیار نہیں ڈالے اور نہ ہی آئین کو تسلیم کِیا ہے (آئندہ بھی اُن سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی) اکتوبر 2013 ءکے اوائل میں طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک وِیڈیو انٹرویو میں کہا تھا کہ ”مذاکرات سے ہمارا مقصد مُلک میں شریعت نافذ کرنا ہے۔ طالبان قبائلی علاقوں سے نکل کر پاکستان کے شہروں تک پہنچ چُکے ہیں۔ اب ہمارا ہدف اسلام آباد ہے۔ ہم اسلام آباد کو حقیقی معنوں میں اسلام آباد بنا دیں گے“۔
3 مارچ کو اسلام آباد کی سٹی کورٹ پر دہشت گردوںکے حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہیں کی۔ اُس کے بعد سے چودھری نثار علی خان دہشت گردی کو ”پُرتشدّد کارروائی“ کہتے ہیں اور قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے انہوں نے فرمایا کہ ”طالبان کی اکثریت محبّ ِوطن“ ہے۔ اِس سے قبل مولانا سمیع اُلحق 15 فروری کو لاہور میں اپنی صدارت میں منعقدہ 32 مذہبی جماعتوں کے قائدین اور 2 سو ”جیدّ عُلما¿“ کی کانفرنس سے منوا چُکے ہیں کہ ”طالبان پاکستان کے بیٹے ہیں“۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ”مُحبّ وطن طالبان“ اپنی اداﺅں پر خود بھی غور کریں! اور شاعرِ سیاست کی اِس اپیل پر بھی۔
”اے مُحبّ ِوطن طالبانو!
لِلّلہ! اتنی گذارش تو مانو!
چھوڑ دو‘ قتل و غارت کے فن کو
اور مارو نہ‘ اہلِ وطن کو
اپنی اپنی شرِیعت کے خانو!
جنگ جُوئی کے تیِرو‘ کمانو!
”اے مُحبّ ِوطن طالبانو!

ای پیپر دی نیشن