اسلام آباد (آن لائن) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف کو ملنے والا ڈیڑھ ارب ڈالر کا تحفہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کیا جائے، تاریخ میں اتنی بڑی مالیت کا تحفہ کسی ملک کونہیں دیا گیا۔ کچہری حملے کے فوری بعد وزیرداخلہ نے جو غلط بیانی کی تھی، اپنے اس بیان پر سوچ سمجھ کر اپنے بارے خود فیصلہ کریں، چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے حوالے سے اسحاق ڈار سے رابطہ ہوا تھا، تاہم ابھی تک کوئی اتفاق نہیں ہوا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو رانا بھگوان داس کے نام پر اعتماد میں لیا تھا اسی وجہ سے انہوں نے قومی اسمبلی میں سپورٹ کیا۔ سارا ملک امن علاقہ ہے، طالبان اس ملک کو پیس ایریا بنائیں،سعودی عرب سے ڈیڑھ ارب ڈالر کے معاملے پر حکومت عوام کو حقائق سے آگاہ کرے، وزیراطلاعات ہمیں مزید خوشخبریاں دیں مگر یہ خوشخبری خفیہ ڈیل کے حوالے سے نہ ہو۔ منگل کو پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی پر خورشید شاہ نے کہا کہ سینیٹر اسحاق ڈار سے رابطہ ہوا، ایک نام دیا تھا متفق بھی تھے اور قانونی رکاوٹ ختم کرنے پر اتفاق ہوا تھا۔ انہوں نے کہا سینٹ میں بل کمیٹی کو بھجوائے جانے کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا یہ بل کمیٹی کو دیا گیا ہے یا کمیٹی کی رپورٹ کا انتظار کریں یا نئے اچھے نام پر غور کریں گے، سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا سوچ کر آپ سے رابطہ کریں گے، جس کے بعد رابطہ نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا تحریک انصاف کا وطیرہ بن چکا ہے، بات کرتے ہیں اور پھر تنقید کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ میں عمران خان نہیں آتے۔ انہوں نے کہا چیف الیکشن کمشنر کے تقرر کیلئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں اتفاق ہوجانے کے باوجود پارلیمانی کمیٹی میں ضرور جائیگا۔ انہوں نے کہا رانا بھگوان داس کے اس عہدے پر متفق ہونے کا علم نہیں، ان سے پہلے رابطہ ہوا تھا، اب نہیں ہوا۔ طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیردفاع کے پاس زیادہ معلومات ہیں اور انکی بات زیادہ اہم ہوتی ہے، طالبان کی تنقید کا جواب خود حکومت ہی دے سکتی ہے۔ انہوں نے کہا تحقیقاتی کمیٹی نے رپورٹ دیدی ہے کہ طالبان کی گولی جج کو لگی ہے، وزیر داخلہ کے غلط بیان نے استثنیٰ کو فائدہ پہنچایا، عوام نے ایوان کو گمراہ کیا یہ کس کی خدمت کی اور کس کی حمایت کی وہ اپنے اقدام پر غور کرکے فیصلہ کریں۔ انہوں نے کہا عمران خان خیبرپی کے کے لیڈر ہے اور مذاکرات بھی اسی علاقے میں چل رہے ہیں اسلئے وزیراعظم نے ان سے ملاقات کرکے مشاورت کی، مجھے اس معاملے پر اعتماد میں لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیراعظم اگر مشاورت کرنا چاہیں تو خوش آمدید کہیں گے۔ سعودی ولی عہد کے دورے کے بعد مختلف معاملات پر باتیں آنا شروع ہوگئیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی سعودی ولی عہد کے دورے کے بعد سعودی عرب سے ہونیوالے معاہدوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کیلئے حکومت کو کہا تھا تحفے کیلئے ضمانت نہیں دی جاتی، بہتر ہوتا حکومت دوست ملک کی جانب سے ملنے والی رقم کے حوالے سے کئی جھوٹ بولنے کی بجائے ایک سچ بول دیتی، ایک دم بات کھل جانے سے مزید سوالات ابھر رہے ہیں، حکومت اب بھی سچ بول دے، حکومت 24 مارچ کو اسمبلی کے اجلاس میں ایوان کو اعتماد میں لیں، ثابت کر رہے ہیں جمہوریت سے ملک خوشحال ہوتا ہے، جمہوریت سے اچھا پیغام دنیا میں جائیگا، آپ ہمیں خوشخبریاں بتا رہے ہیں، جس ملک میں ہزاروں لوگوں کو بیروزگار کررہے ہیں تو ترقی کہاں ہوئی۔ انہوں نے کہا وزیراعظم نے چیئرمین اوگرا بنایا،کرپٹ آدمی تھا، ادارے کو نقصان پہنچا، غلط فیصلوں سے ملک کا اربوں ڈالر کا نقصان ہوا،اس کا کون ذمہ دار ہوگا۔ مزید برآں نجی ٹی وی کو انٹرویو میں خورشیدشاہ نے کہا ہے سعودی عرب سے ملنے والی رقم کے بارے میں حکومتی موقف میں تضاد ہے، کوئی اسے تحفہ کہہ رہا ہے اور کوئی امداد اورکوئی میاں نوازشریف کی گارنٹی پرقرض کہہ رہا ہے۔ انہوں نے کہا شام کے بارے پاکستان کا ایک ہی مؤقف ہے ہمیں کسی اورکی جنگ میں شرکت نہیں کرنی چاہئے۔ طالبان سے مذاکرات ابھی شروع ہی نہیں ہوئے تومطالبات سامنے آرہے ہیں، وہاں سے قیدیوں کی رہائی فری زون دینے اوردیگرمطالبات سامنے آرہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ حکومت جلد از جلد امن قائم کرے، پتہ نہیں وہ کیسے امن لائیگی، حکومت جو بھی طریقہ اختیارکریگی ہم انکا ساتھ دیں گے۔