ایک ایسے وقت میں جب ضلع ڈیرہ غازیخان میں رودکوہیوں کو کنٹرول کرنے اور ان میں آنے والے پانی کو انسانوں کے لئے مفید بنانے کیلئے منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ حالیہ بارشوں کے باعث رودکوہی سوری لُنڈ میں 52 ہزار کیوسک پانی آجانے سے اسکے راستے میں ایک مرتبہ پھر تباہی و بربادی کے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔پورے ضلع ڈیرہ غازیخان کے اوپر کوہ سلیمان کا طویل سلسلہ موجود ہے جب کبھی بارش ہوتی ہے اور ان پہاڑوں سے اترنے والا تیز رفتار پانی صدیوں سے تباہی و بربادی کا پیغام سمجھا جاتا تھا۔ بارشوں کے اس پانی نے صدیوں کے سفر کے دوران اپنے لئے راستے منتخب کر لئے تھے لیکن جب کبھی زیادہ پانی آتا ہے وہ ان راستوں سے باہر نکلتا ہے پھر جو چیز اسکی زد میں آتی ہے وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے کیونکہ پہاڑوں سے اترنے والے پانی کی رفتار کسی بھی دریائی پانی کی رفتار سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
کوہ سلیمان کے دامن میں بنجر اور بے آباد زمینوں پرکاشتکاری اسی پانی کے باعث ہوتی رہی ہے جہاں کہیں سے یہ پانی گزرتا ہے وہاں فصلیں کاشت کی جاتی رہی ہیں لیکن یہ کاشتکاری بہت محدود پیمانے پر رہی ہے۔ اسی لئے اس ضلع کے عوام کا یہ بہت دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ اس پانی پر کنٹرول حاصل کیا جائے لیکن ماضی کی حکومتوں کی لاپرواہی کے باعث منصوبہ بندی نہ ہو سکی۔ اگر کسی وقت منصوبہ بندی ہوئی تو ابتدائی مراحل میں ہی فائلوں میں دبا دی گئی۔ مقامی زبان میں اس پانی کو ’’نہس‘‘ اردو میں ’’رودکوہی‘‘ اور انگریزی میں ’’ہل ٹالر نیٹ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان کے اطراف میں ان کی تعداددرجنوں میں ہے۔ تاہم بڑی رودکوہیاں کم ہیں جن کی تعداد ایک درجن کے قریب ہے۔ اگر ان بڑی رودکوہیوں کے پانی کو قابو کر لیا جاتا ہے تو پھر دیگر چھوٹی رودکوہیوں کے پانی کو بڑی میں ڈالا جا سکتا ہے۔ حکومت نے ابتدائی طور پر 9 رودکوہیوں کے پانی کو کنٹرول کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ان میں وہوا‘ نتکانی‘ سنگھڑ‘ سوری لُنڈ ‘ وڈور‘ مٹھاون‘ سخی سرور‘ ننگر اور چوٹی نام کی رودکوہیاں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان میں اکا دکا ایسی ہیں جن میں روس کے پہاڑوں سے اترنے والا پانی شامل ہے۔ حکومت نے مذکورہ رودکوہیوں کے پانی کو کنٹرول کرنے کیلئے ابتدائی طور پر جو تخمینہ لگایا ہے وہ 20 ارب روپے سے زائد کا ہے۔ ان میں سے وہوا رودکوہی پر کام جاری ہے اور جلد مکمل ہونے کا امکان ہے۔ نتکانی رودکوہی کا ٹینڈر لگ چکا ہے۔ سوری لُنڈ رودکوہی کے ٹینڈر کل یعنی 20 مارچ کو کھلنے ہیں۔ اسی طرح وڈور رودکوہی پر بھی کام جاری ہے۔ اگر یہ منصوبے مکمل ہو جاتے ہیں تو اس سے کئی فوائد حاصل ہونے کی توقع ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان رودکوہیوں کا پانی آبادیوں میں داخل ہو کر جوتباہی پھیلاتاہے اس سے یہ آبادیاں محفوظ ہو جائیں گی ۔دوسرے یہ کہ ضلع ڈیرہ غازیخان میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ ایکڑ رقبہ قابل کاشت ہو جائے گا جو صدیوں سے بنجر چلا آرہا تھا۔ صرف سوری لُنڈ رودکوہی پر کنٹرول کے باعث24 ہزار ایکڑ رقبہ قابل کاشت ہو گا جبکہ وڈور رودکوہی کے ذریعے26 ہزار ایکڑ کاشت کے قابل ہو جائے گا۔ وہوا رودکوہی سے وہوا شہر اور نکانی و سنگھڑ رودکوہیوں پر کنٹرول سے تونسہ شہر اور اسکے مضافات محفوظ ہو جائیں گے۔ وڈور رودکوہی کے پانی نے گزشتہ سال ہی ڈیرہ غازیخان شہر کے مضافات میں تباہی پھیلادی تھی۔ اسکی تکمیل سے ڈیرہ غازیخان شہر محفوظ ہو جائے گا۔ ماضی بعید میں بھی ڈیرہ غازیخان شہر ان ہی پانیوں سے غرق ہو گیا تھا۔ نیا شہر اس جگہ سے ہٹ کر بنایا گیا۔
مٹھاون رودکوہی سے چوٹی بالا‘ سخی سرور رودکوہی سے سخی سرور شہر کے مضافات اور چوٹی رودکوہی سے چوٹی زیریں کے مضافات محفوظ ہو جائیں گے۔ کوہ سلیمان کے دامن میں زیر زمین پانی کڑوا ہے جو پینے اور کاشت کے قابل نہیں۔ ان علاقوں میں رہنے والے لوگ روزانہ کئی کئی میل کا سفر کر کے دریائے سندھ سے پانی لیکر گزارہ کرتے رہے ہیں۔ اب منصوبہ بندی میں مختلف مقامات پر پینے کے پانی کے تالاب بھی بنائے جائیں گے اور توقع کی جارہی ہے کہ ان منصوبوں کی تکمیل کے بعد چندسالوں کے اندر زیر زمین پانی بھی قابل استعمال ہو جائے گا۔ یہ ساری منصوبہ بندی کھوسہ سرداروں کو نیچا دکھانے کے لئے ہوئی ہے یا جمال لغاری اور اویس لغاری کو خوش کرنے کے لئے۔ دونوں صورتوں میں ڈیرہ غازیخان ضلع کے عوام کی قسمت بدلنے کا سامان بن رہا ہے۔ کھوسہ سرداروں کی جانب سے نئی مسلم لیگ کے قیام کے لئے کوششوں کے بعد وفاقی اور پنجاب حکومت نے وسائل کا رخ اس خطے کے پسماندہ علاقوں کی جانب موڑ دیا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ جس فراخدلی کے ساتھ ضلع ڈیرہ غازیخان کو اب ترقیاتی فنڈز فراہم کئے جا رہے ہیںماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی۔رودکوہیوں کو کنٹرول کرنے کیلئے ڈیم نما جو بند بنائے جا رہے ہیں ان میں ایک خامی خاص طور پر محسوس کی جا رہی ہے کہ ان میں بجلی کی پیداوار کے منصوبے شامل نہیں کئے گئے جس کا جواز یہ پیش کیا جا رہا ہے کہ بجلی کی پیداوار کے لئے سارا سال پانی کی دستیابی ضروری ہے۔ آج جدید دور ٹیکنالوجی کا دور ہے اگر منصوبہ بندی کے وقت دنیا میں موجود جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے تو کم از کم چند میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنائے جا سکتے تھے۔ ابھی بھی ملکی و غیر ملکی ماہرین سے رابطہ کر کے یہ فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ رودکوہیوں پر کنٹرول کے بعد ضلع ڈیرہ غازیخان میں ترقی و خوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا اور کوہ سلیمان کے دامن میں بسنے والے قبائل کو جو آج کے دور میں بھی مغلوں کے دور جیسے ملبوسات پہنتے ہیں وہ نہ صرف خوشحال ہونگے بلکہ ملکی ترقی میں بھی معاون ثابت ہونگے۔ ضلع ڈیرہ غازیخان کی پسماندگی دور کرنے کیلئے کوہ سلیمان میں چھپے خزانوں کی تلاش کی بھی منصوبہ بندی کی جانی چاہئے اور ماہرین کے مطابق اس خطے میں تیل و گیس کے ذخائر کی موجودگی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ رودکوہیوں پر کنٹرول کے بعد کوہ سلیمان میں چھپی قیمتی دھاتوں کو نکالنے کے ساتھ ساتھ تیل و گیس کی تلاش کی منصوبہ بندی کا آغاز کیا جائے تو ضلع ڈیرہ غازیخان جسے ماضی میں کالا پانی کہا جاتا تھا دیگر شہروں کی طرح ترقی کی دوڑ میں شامل ہو سکتا ہے۔
رودکوہیوں سے بہنے والے پانی کے استعمال کا فیصلہ
Mar 19, 2015