قومی زبان… اہمیت اور حقیقت حال

دنیا میں کوئی قوم اپنی زبان کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔ ہماری قومی زبان اردو ہے۔ قومی زبان سے مُراد وہ زبان جو سارے ملک کو اتحاد کے بندھن میں باندھے رکھتی ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد، نظریات اور خیالات کو سمجھنے میں معاون و مددگار ہوتی اور تعلیم کی اساس مضبوط کرتی ہے۔ اس لحاظ سے قومی یکجہتی میں انتہائی نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔قیامِ پاکستان کے فوراً بعد ہی اس بات کا فیصلہ کر لیا گیا تھا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہوگی۔ خالقِ پاکستان اسمبلی نے اس حوالے سے فروری 1948ء میں یہ قانون پاس کرلیا تھا اور قائداعظم محمد علی جناح نے اردو کی قومی زبان کی حیثیت کا اعلان بھی کر دیا اور قائد کے اعلان کے بعد کسی پس و پیش کی گنجائش نہیں رہ گئی تھی لیکن بعد ازاں پاکستان مخالف لابی کے پھیلائے ہوئے پراپیگنڈے کے زیر اثر اور دیگر سیاسی وجوہات کی بنا پر زبان کا مسئلہ کھٹائی میں پڑا رہا۔ لیکن 1973ء کے متفقہ آئین میں اس کی قومی اور سرکاری حیثیت کا تعین کر دیا گیا۔ چنانچہ آئین کی دفعہ 251 کا درجِ ذیل متن اس صورتحال کو مکمل طور پر واضح کر دیتا ہے۔دفعہ 251 (i) پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی اور یومِ آغاز سے 15 سال کے اندر اندر اس کے بطور سرکاری زبان اور دیگر اغراض سے استعمال کئے جانے کے انتظامات کئے جائیں گے۔ (ii)  شق (i) کے تابع انگریزی کو سرکاری اغراض کے لیے استعمال کیا جائیگا۔ جب تک اسے اردو سے تبدیل کئے جانے کے انتظام نہیں کر لئے جاتے۔ (iii) قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کئے بغیر کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کیلئے اقدامات کر سکے گی۔دستورِ پاکستان میں انگریزی زبان کو وقتی ضرورت کے تحت 13 اگست 1988ء تک کیلئے اردو کی جگہ عارضی طور پر زبان کی حیثیت دی گئی تھی اور 14 اگست 1988ء سے اردو کو اپنا مقام اور مرتبہ حاصل ہو جانا چاہیے تھا لیکن اس حوالے سے آئین میں دیے گئے پندرہ سال تو ایک طرف آج تک کوئی سنجیدہ حکومتی کوشش نظر نہیں آتی اور اس طرح آئین کی مستقل خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ ملک میں انگریزی کی بالادستی ہے اور اس کی بین الاقوامی حیثیت کے بارے میں بڑی بڑی باتیں کرکے اپنی زبان سے بیوفائی کی جا رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم لوگ آزاد ہونے کے باوجود بھی ذہنی طور پر غلامی کا ہی شکار ہیں۔ زبان، اخلاق اور کردار پر بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ موجودہ دہشت گردی کی خوفناک صورتحال میں انسانی کو زندہ کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے جو اپنی زبان اردو کو قومی زبان کا درجہ دیکر پوری کی جا سکتی ہے۔اردو کو سرکاری اور دفتری زبان بنانے کے اس اہم ترین معاملے کے ساتھ ساتھ ایک اور مسئلہ ہے جو اپنی زبان سے محبت کرنے والوں کیلئے مزید تکلیف کا باعث ہے۔ یہ معاملہ ہے الیکٹرانک میڈیا اور معاشرے کے انگریزی زدہ طبقے کی طرف سے اردو زبان کو بگاڑ کر بولنے کا۔ اردو ایک جامع زبان ہے اور یہ ہر قسم کے انسانی تاثرات کو الفاظ دینے پر قادر ہے۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا اور معاشرے کے ایک طبقے میں اس کو اس قسم کے مصنوعی انداز میں بولا جاتاہے کہ سننے والے کو شرمندگی ہوتی ہے۔ جب تک ٹیلیویژن صرف پی ٹی وی تک محدود تھا اس میں زبان کی درست ادائیگی پر بہت زور دیا جاتا تھا اس سلسلے میں ٹیلیویژن کے ابتدائی بیس پچیس سال کے پروگرام اور نشریات بطور مثال پیش کئے جا سکتے ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب بہترین اردو سیکھنے اور بولنے والے ٹی وی کیلئے لکھتے اور کام کرتے تھے۔ الفاظ کا چنائو بہترین ہوتا تھا اور ان کی ادائیگی اور صوتی تاثرات پر بہت زور دیا جاتا تھا۔ چنانچہ ناظرین کے اعلیٰ ذوق کی تسکین کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی ہوتی تھی۔ لوگ خبریں سُنتے تھے، ڈرامے اور مذاکرے دیکھتے تھے اور اسی میڈیا سے انہیں بہترین شاعری اور موسیقی سُننے کو ملتی تھی۔آج جبکہ الیکٹرانک میڈیا بہت ترقی کر چکا ہے، بذریعہ کیبل وغیرہ بے شمار چینلز دیکھے جا سکتے ہیں۔ نجی سطح پر بہت سے ٹیلیویژن چینلز کام کر رہے ہیں، اردو زبان کی ادائیگی کی صورتِ حال نہایت مضحکہ خیز ہے۔ چند چینلز تو نجانے کس ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں کہ ان کے بیشتر پروگرام مقبولیت سے عاری ہیں۔ اس وقت زیربحث چونکہ زبان کا مسئلہ ہے اس لئے اس موضوع پر ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ ان چینلز پر اردو زبان میں بہتات کے ساتھ انگریزی الفاظ شامل کرکے بولے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ خبریں پڑھنے والے اور پروگرام کے کمپیئر خواتین و حضرات قومی زبان میں انگریزی سمیت دیگر غیر ملکی زبانوں کے الفاظ شامل کر کے نہایت مضحکہ انداز میں بولتے ہیں اور اپنے چہرے کے تاثرات بھی ایسے بنا لیتے ہیں جیسے وہ غیر ملکی چینلز کے لوگوں کو کرتا دیکھتے ہیں۔ اسی طرح دیکھا جائے تو معاشرے میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو اپنی زبان میں بات کرنا مناسب خیال نہیں کرتا۔ یہ لوگ یا تو مکمل طور پر غیرملکی زبان بولتے ہیں یا اردو میں انگریزی کے الفاظ کثرت سے شامل کرکے گفتگو کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگوں میں ایک محدود طبقہ ایسا ہے جو نفسیاتی طور پر اُلجھا ہوا ہے۔ ان لوگوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہیں جو زیادہ تر مادیت پر مبنی ہیں جو ان کو اپنی روایات سے بیگانہ کرنے کا باعث بن رہی ہیں اور غیرملکی زبان میں بات کرنا ان لوگوں کیلئے بڑائی کی علامت ہے۔حقیقتِ حال یہ ہے کہ انگریزی زدہ حکمران طبقے، نام نہاد اشرافیہ اور خصوصاً بیوروکریسی اردو زبان کو اس کا مقام دلانے میں حائل ہیں۔ یہ طبقات اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ پہلے لکھا جا چکا چونکہ ان طبقات کی معاشرے پر گرفت بہت مضبوط ہے اور جمہوریت ہونے کے باوجود عوام الناس کی پسند اور رائے ثانوی حیثیت رکھتی ہے اس لئے دیگر اور بہت سے معاملات و مسائل کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان کا غلبہ بھی قائم ہے اور آئینِ پاکستان میں دی گئی مہلت سے ستائیس سال مزید گزر جانے کے بعد بھی انگریزی زبان کا غلبہ قائم ہے۔ قومی زبان کو اس کا صحیح مقام دلانے کیلئے اس زبان سے محبت کرنے والے بہت سے لوگ انفرادی و اجتماعی سطح پر کوششیں کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ والدِ گرامی پروفیسر حمید کوثر (مرحوم) ان لوگوں کی اولین صف میں شامل تھے جو اردو زبان کو اس کا قانونی اور آئینی مقام دلانے کیلئے سرگرم تھے۔ اردو زبان سے محبت ان کے ایک ایک فقرے سے ظاہر ہوتی تھی۔ انہوں نے نفاذِ اردو کیلئے قانونی جنگ بھی لڑی اور عدالتِ عالیہ کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا۔

ای پیپر دی نیشن