اثاثے دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک پراپرٹی، دوسرا علم۔ پراپرٹی کا ایسا شور پڑا کہ ہم علمی اثاثے کو بھولتے جارہے ہیں۔ ہمیں اب کم یاد رہتا ہے کہ کیسی کیسی بڑی شخصیات اٹھ کر چلی گئیں۔ ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی۔ صرف دو برس ہی بیتے ہیں۔ مارچ 2013ء کی 19 تاریخ تھی جب نوائے وقت کے ممتاز کالم نگار اور اردو کے ادیب خالد احمد چپ چاپ چلے گئے۔ خالد احمد خود تو لکھاری تھے ہی، اُن کے خانوادے میں ایک سے ایک لکھاری اور صحافی تھا۔ لکھنے کا اِذن اُن کے ہاں صرف مَردوں کے پاس ہی نہیں بلکہ اُن کی خواتین بھی اردو ادب کی چمکتی روشنیاں تھیں۔ نام لینے شروع کریں تو محسوس ہوگا کہ اتنے بڑے ادیب مختلف خاندانوں اور مختلف جگہوں کے ہوں گے مگر یہ سب تو ایک ہی لڑی کے خوشبودار پھول تھے۔ خالد احمدممتاز صحافی توصیف احمد خان، نامور فکشن رائٹر خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور کے بھائی تھے۔ وہ روزنامہ ڈان کے سابق ایڈیٹر احمد علی خان اور امروز کے سابق ایڈیٹر ظہیر بابر کے برادرِ نسبتی بھی تھے۔ ان کے کئی شاندار مجموعہ کلام اور دیگر تصانیف ہیں جن کی مانگ ہر وقت رہتی ہے جن میں تشبیب، ہتھیلیوں پہ چراغ، پہلی صدا پرندے کی، دراز پلکوں کے سائے سائے، ایک مٹھی ہوا، جدید تر پاکستانی ادب اورلمحہ لمحہ وغیرہ شامل ہیں۔ خالد احمد نے ادبی رہنمائی احمد ندیم قاسمی سے حاصل کی جو ایک لحاظ سے اُن کے خاندان کے سرپرست بھی تھے۔ وہ تقریباً بائیس برس تک ادبی مجلہ ’’بیاض‘‘ کے مدیر رہے۔ انہوں نے روزنامہ امروز، جنگ اور دی مسلم میںبھی کالم لکھے ۔ انہوں نے ریڈیو اور ٹی وی کے لئے بہت سے ڈرامے اور گیت بھی تحریرکئے۔ وہ ادبی بیٹھک الحمرا لاہور کے مستقل ممبر تھے۔ اردو ادب میں اعلیٰ خدمات کے عوض انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ دو برس پہلے آج ہی کے دن ان کی نماز جنازہ لاہور میں ادا کی گئی جس میں عطاالحق قاسمی، امجد اسلام امجد، اجمل نیازی، الطاف حسین قریشی، خواجہ زکریا، سجاد میر، خورشید رضوی، سعود عثمانی، شوکت شاہ، سلیم طاہر،فضل حسین اعوان، سعیدآسی اور روزنامہ نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر مجید نظامی سمیت بہت سی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی۔ آج خالد احمد کی دوسری برسی پر کتنے لوگ انہیں یاد کر رہے ہیں؟ اس کا اندازہ اُن کے دوستوں اور ادیبوں کی آج کی مصروفیات کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ دفنانے کے بعد نہ جانے ہم کن لوگوں کو یاد رکھتے ہیں؟ پاکستان میں اس حوالے سے ایک شخصیت نے اپنے لئے ایک سٹینڈرڈ بنارکھا تھا۔ اظہار تعزیت کا سٹینڈرڈ بنانے والی یہ شخصیت اپنے آپ کو اردو ادب کا ایفل ٹاور کہتی ہے۔ یہ علیحدہ بات کہ ان کی 70 برس کی مختصر زندگی میںاُن کے کئی مجموعے آئے مگران میں سے صرف چند نظمیں یا ایک آدھ شعر ہی لوگوں کی زبان پر ہے۔ ان کے صحیح تعلیمی کوائف کا کسی کو پتہ نہیں۔ البتہ ان کے مختلف انٹرویوز میں مختلف ڈگریاں بتائی گئی ہیں۔ یہ موصوف جس ملک میں بھی نوکری کی غرض سے رہتے ہیں اُس ملک کے عقیدے کے اعتبار سے اپنے نام میں بھی ترمیم کر لیتے ہیں۔ ان کے کمالات میں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی کانٹریکٹ سرکاری ملازمت میں سب سے لمبے عرصے تک گریڈ 21 اور گریڈ 22 میں رہنے والے سرکاری افسر ادیب ہیں۔ جب وہ اسلام آباد کے علمی و ادبی محکموں کے سربراہ تھے تو انہوں نے اپنے دفتر والوں کو سخت ترین ہدایت کر رکھی تھی کہ چھوٹے سے چھوٹے اخبار میں بھی اگر کسی فرد کے انتقال کی خبر چھپے تو اس کا تراشہ بنالیا جائے۔ پھر وہ جائزہ لیتے تھے کہ مرنے والے کی کیا حیثیت ہے؟ اگر مرنے والا معمولی فرد ہوتا اور اُس کے ورثاء بڑے عہدوں پر فائز ہوتے یا بڑے نام والے ہوتے تو موصوف اظہار تعزیت کی خبریں چھپوانے کا لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتے اور اگر مرنے والا بیشک بڑا آدمی ہوتا مگر اُس کے ورثاء میں کوئی بڑا عہدہ یا بڑا نام نہ ہوتا تو بات زیادہ دور تک نہ جاتی۔ موصوف نے اس سٹینڈرڈ کے تحت جتنی خبریں چھپوائی ہیں ان کی ایک موٹی کتاب شائع ہوسکتی ہے جس کے انتساب میں یہ لکھا جاسکتا ہے کہ ’’مرنے والے کے نامور ورثاء کے نام‘‘۔ انہی موصوف کے اظہار تعزیت کا ایک سٹائل اور بھی تھا۔ جب یہ اطلاع آئی کہ احمد فراز امریکہ میں انتقال کر گئے ہیں تو ایک بڑے ٹی وی چینل کے رپورٹر فوری طور پر موصوف کے گھر پہنچے اور احمد فراز کے حوالے سے تعزیتی پیغام ریکارڈ کرنے لگے۔ موصوف نے دنیا بھر کا غم اپنی شکل پر نافذ کرکے احمد فراز کے لئے تعزیتی پیغام ریکارڈ کرایا۔ عین اسی وقت رپورٹر کو اپنے کنٹرول روم سے اطلاع ملی کہ احمد فراز کے انتقال کی خبر غلط ہے۔ جب رپورٹر نے سامنے بیٹھے ’’دکھی موصوف‘‘ کو یہ بتایا تو وہ فوراً کھلکھلا کر ہنسے اور کہنے لگے ’’مجھے تو پہلے ہی علم تھا کہ یہ اتنی آسانی سے نہیں جائے گا‘‘۔ کیا خالد احمد کی وفات پر گہرے گہرے دکھی پیغامات دینے والے اب بھی انہیں یاد کرتے ہیں؟ خالد احمد خود بھی بڑے لکھاری تھے اور اُن کا تعلق بھی بڑے لکھاریوں کے خاندان سے تھا۔ میں خالد احمد کو نہیں جانتا کیونکہ میری ان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی لیکن میں خالد احمد کو اچھی طرح جانتا بھی ہوں کیونکہ ان کی تحریروں کے ذریعے میری ان سے ملاقاتیں ہیں۔ میں ان کی اولاد کو نہیں جانتا لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ان کی اولاد ایک بڑے باپ کی اولاد ہے۔ ہماری نئی نسل کو خالد احمد جیسی شخصیات سے روشناس کرانا اس لئے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ یہ نسل دن رات ٹی وی پر موبائل کمپنیوں کے نیم جنسی کمرشل دیکھ دیکھ کر لنک تو ہوتے جارہے ہیں لیکن اپنے علمی آبائو اجداد سے ان کا لنک ٹوٹتا جارہا ہے۔ ہم اپنے علمی اثاثے کی خالد احمد جیسی فخریہ قسم کوبھول کر اثاثے کی پراپرٹی والی قسم کے پیچھے بھاگ رہے ہیں، اسی لئے صرف پراپرٹی ڈیلر بن کر رہ گئے ہیں۔ خالد احمد نے کہا تھا… ؎
ترکِ تعلقات پہ رویا نہ تُو نہ میں
لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تُو نہ میں