ہوشیار باش! یہ بھارت کی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی نئی چال ہو سکتی ہے
نیپال کے شہرکھٹمنڈو میں جاری سارک کانفرنس کے موقع پر مشیر خارجہ سرتاج عزیزنے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی جس میں پاکستان بھارت مذاکرات کی بحالی سمیت دو طرفہ امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ملاقات کے بعد سشما سوراج کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ انکی سشما سوارج سے خوشگوار موڈ میں ہونیوالی ملاقات انتہائی مفید رہی ہے۔ موڈ میں ہوئی اس ملاقات کا بنیادی مقصدمودی کو سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کا دعوت نامہ دینا تھا۔ پٹھان کوٹ حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان بات چیت میں رکاوٹ آئی تھی جسے اب دور کر لیا گیا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام معاملات میں سمجھوتہ اور معاہدہ ہو گیا ہے۔ جن ایشوز پر اختلاف تھا وہ اس ملاقات میں طے کر لئے گئے ہیں۔ سشما سوراج نے بتایا کہ پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کیلئے پاکستانی ٹیم 27 مارچ کی رات بھارت پہنچے گی اور 28 مارچ سے اپنی تحقیقات شروع کر دیگی۔
پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کے پاس آکر کھسرپھسر کی تو دونوں ممالک کے مابین کشیدگی میں کمی آنے لگی‘ اسی ملاقات کے نتیجے میں چند روز بعد بنکاک میں دونوں ممالک کے قومی سلامتی کے مشیران کے مابین مذاکرات ہوئے‘ اسکے بعد ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستان آئیں جہاں ان کا موڈ بالکل ایسا ہی خوشگوار تھا جیسا گزشتہ روز سرتاج عزیز کیساتھ ملاقات میںنظر آیا۔ قبل ازیں وہ پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائی کرتی اور زہر اگلتی رہتی تھیں۔ یہ کام مودی سمیت ہر بھارتی وزیر بڑے اہتمام سے کرتا ہے۔ ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کے موقع پر سشماسوراج بھارت کی طرف سے پاکستان کیلئے خیرسگالی کا پیغام چھوڑ کر گئیں‘ انہی دنوں مودی نے وسط ایشیائی ریاستوں کے دورے کے بعد واپسی پر وزیراعظم نوازشریف کولاہور میں رک کر انکی سالگرہ پر مبارکباد دی اور جاتی امرا میں انکی نواسی کی شادی میں شرکت کی۔ اس دوران بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر گولہ باری کا سلسلہ رک گیا اور سیکرٹری سطح پر مذاکرات کا شیڈول طے پاگیا تھا کہ پٹھانکوٹ حملے نے کئے کرائے پر پانی پھیر دیا۔ بھارت نے فوری طور پر مذاکرات مؤخر نہ کئے اور پہلی بار ایسا ہوا کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے میں پاکستان کو ملوث قرار دینے سے گریز کیا گیا۔
بھارت کی سیاسی لیڈر شپ کا اصرار تھا کہ حملہ آور پاکستان سے آئے تھے‘ لہٰذا پاکستان ان کیخلاف کارروائی کرے۔ حکومت پاکستان نے بغیر کسی مناسب ثبوت کے اور بھارت کی طرف سے فراہم کی گئیں ادھوری معلومات پر پھرتیاں دکھاتے ہوئے کارروائی کی‘ وزیراعظم کی زیر صدارت اعلیٰ سطح کے اجلاس کے اعلامیہ میں کالعدم تنظیم جیش محمد کو اس حملے میں ملوث قرار دیا گیا اور چھاپوں کے ساتھ اسکے رہنمائوں کو حراست میں لے لیا گیا۔ بادی النظر میں یہ اقدامات بھارت کے ساتھ تعلقات میں آنیوالی گرم جوشی کو برقرار رکھنے کیلئے کئے گئے تھے۔ بھارت کی طرف سے شروع میں تو اس کا مثبت جواب دیا گیا مگر پھر بھارتی لیڈروں کے رویے اور بیانات میں جارحیت کا عنصر غالب آنے لگا۔ بھارتی آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سہاگ تو حملے کے دوسرے روز ہی اپنی حکومت پر برس پڑے تھے کہ اسکی پاکستان کے ساتھ نرم پالیسی قومی سلامتی کیخلاف ہے۔ اسکے بعد بھارتی وزیر دفاع منوہر پاریکر اشتعال انگیز بیانات دینے لگے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کیلئے پاکستان کی جانب سے تشکیل دی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا خیرمقدم کیا‘ اس خیرمقدم کی ابھی بازگشت جاری تھی کہ منوہر پاریکر نے گرجتے ہوئے کہا کہ پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو پٹھانکوٹ ایئربیس میں داخل نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے پاکستان کو ایک سال میں جواب دینے کی دھمکی دی‘ پٹھانکوٹ حملے کا مقدمہ گوجرانوالہ میں درج ہوا تو اسے ناکافی قرار دیا پھر کہنے لگے کہ پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹر حکومت کی حمایت کے بغیر حملہ نہیں کر سکتے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اپنے آرمی چیف اور وزیر دفاع کی زبان بولتے نظر آئے۔ سیکرٹری سطح کے مذاکرات دونوں ممالک نے باہمی مشاورت سے مؤخر کئے تھے۔ نریندر مودی نے انکے انعقاد کو خوشگوار ماحول سے مشروط کردیا‘ انکے نزدیک خوشگوار ماحول کا مطلب پاکستان سے دہشت گردوں کی دراندازی روکنا ہے جس کا کوئی وجود ہے اور نہ کوئی بھارت کے پاس ثبوت۔ گویا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔
باہمی مشاورت سے جو مذاکرات ملتوی ہوئے تھے انکے انعقاد کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بھارتی آرمی چیف اور وزیر دفاع کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے میں پاکستان کے نان سٹیٹ ایکٹرز نے بھارت کے سٹیٹ ایکٹر سے مل کر پٹھانکوٹ ایئربیس پر دہشت گردی کی ہے جس کا مقصد پاکستان بھارت مذاکرات کو ماضی کی طرح سبوتاژ کرنا تھا‘ جس میں وہ کامیاب رہے۔ اب پاکستان کی تحقیقاتی ٹیم کو بھارت آنے کی اجازت دی گئی ہے‘ یہ بھی بظاہر ایک بھارتی چکمہ ہی نظر آتا ہے کیونکہ ایک طرف کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کیلئے چھ رکنی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو ویزا دے دیااور بھارتی حکام نے پاکستانی ٹیم کو بھارت آنے کیلئے کلیئرنس دیدی ہے جبکہ دوسری طرف بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ کرن رجیجو نے کہا ہے کہ پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان کی خصوصی ٹیم کو جہاں ضروری ہوگا وہاں کے دورہ کی اجازت دی جائیگی، پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کی ویزا کلیئرنس سے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا، اسلام آباد نے ابھی تک ٹیم کی تشکیل بارے میں آگاہ نہیں کیا۔
بھارت کے جارحانہ رویے‘ اسکے رہنمائوں کے اشتعال انگیز بیانات اور مودی کی طرف سے مذاکرات کیلئے خوشگوار ماحول پیدا کرنے کی غیرحقیقی شرط کے باوجود پاکستان کی طرف سے فدویانہ طرز عمل اپنایا گیا جس کی امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے تحسین کی۔ لگتا ہے عالمی برادری کو باور کرانے کیلئے بھارت بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے اتنا مخلص ہے‘ سشماسوراج نے ایک بار پھر دھیما اور نرم لب و لہجہ اختیار کرنے کی اداکاری کی جس پر سرتاج عزیز کچھ زیادہ ہی خوش فہمی کا شکار ہو گئے جس کا عندیہ انکے مبہم اور غیرمنطقی بیان سے بھی مل رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین کوئی معمولی ایشوز نہیں ہیں‘ ایک سے بڑھ کر ایک تنازعہ ہے‘ مسئلہ کشمیر کورایشو ہے‘ سرتاج عزیز صاحب کہتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے مابین تمام معاملات پر سمجھوتہ اور معاہدہ ہو گیا ہے۔ کشمیر کور ایشو ہے جس پر مذاکرات سے بھارت بدکتا ہے۔ سشماسوراج نے مذاکرات کی حامی ضرور بھری ہوگی‘ شیڈول کی بات نہیں کی۔ کیا وہ کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دینے کے موقف سے دستبردار اور مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ایجنڈے میں سرفہرست رکھنے پر آمادہ ہو گئی ہیں؟ یہ سشماسوراج ہی تھیں جنہوں نے کہا تھا کہ مذاکرات میں کشمیر کا ذکر تک بھی نہیں ہوگا۔
بنیا شاطر‘ مکار اور عیار ہے‘ اسکے ظاہری رویے سے دھوکہ نہ کھائیں‘ اسکی سازشی ذہنیت سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ اسے عالمی برادری کے سامنے پاکستان بھارت خوشگوار تعلقات باور کرانے کا موقع نہ دیں۔ گزشتہ دنوں برطانوی وزیر خارجہ پاکستان آئے تو انہوں نے مسئلہ کشمیر ایک طرف رکھ کر پاکستان کو بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا مشورہ دیا۔ اس موقع پر سرتاج عزیز خاموش رہے۔ سشماسوراج سے ملاقات میں بھی انہوں نے کشمیر کا ذکر نہیں کیا۔ مسئلہ کشمیر پر مشیر خارجہ کی کہیں ترجیحات تو نہیں بدل گئیں؟ حکمران اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں کہ جب تک بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے عین مطابق حل نہیں ہوتا خطے میں نہ تو پائیدار امن کی ضمانت مل سکتی ہے نہ بھارت کے ساتھ اچھے اور خوشگوار تعلقات قائم ہو سکتے ہیں۔