امور خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری محمد افضل نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ ملک کا مجموعی بیرونی قرض 53ارب 40کروڑ ڈالر ہے۔ جب موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تو مجموعی قرضہ 48ارب دس کروڑ ڈالر تھااس طرح موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے تین سال میں ملک کو مزید پانچ ارب ڈالر کا مقروض کیا ہے۔ اس سے ایک تو حکومت کے کشکول توڑنے کے دعوے کی نفی ہوئی ہے اور دوسری جانب یہ حقیقت بھی کھل کر عوام کے سامنے آ گئی ہے کہ حکومت بدلنے سے طرز حکمرانی میں کوئی فرق نہیں آیا اور حکمران اشرافیہ طبقات میں ملک کے وسائل لوٹنے‘ اپنے مفادات کیلئے ایکا کرنے اور عوام کو نظرانداز کئے رکھنے کی سوچ یکساں ہے جس میں اقتدار کی تبدیلی سے کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی مفاداتی سیاست کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے اور ڈوبتی ہوئی معیشت کو سہارا دینے کی کوئی پالیسی طے کرنے کے بجائے یہ منتخب فورموں پر اپنی تنخواہوں میں مزید اضافے کیلئے زور لگا رہے ہیں۔ یہی وہ سوچ ہے جو عوام کا جمہوریت پر اعتماد اٹھانے کا باعث بنتی ہے۔ حکمران طبقات کو اپنی ان ادائوں پر خود ہی غور کرنا چاہئے۔ کہیں وہ جمہوریت کیخلاف سازشوں کو خود ہی تو موقع فراہم نہیں کر رہے۔