ہیں کواکب کچھ نظرا ٓتے ہیں کچھ ۔
مشرف کا دعوی تو یہ تھا کہ کمانڈو ہوں، ڈرتا ورتا کسی سے نہیں۔
کراچی میں قتل عام کے بعد مکالہراتے ہو ئے کہا کہ یہ ہوتی ہے سیاسی قوت۔
مشرف کمانڈو ضرور تھا، اس کو کسی سے ڈرنے ورنے کی ضرورت نہیں تھی،ا سلئے کہ وہ پاکستان آرمی کا سربراہ تھا، ملک کا چیف ایگزیکٹو تھا جس کے پاس چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے اختیارات تھے،ا یک پتہ تک اس کی مرضی کے بغیر نہیں ہل سکتا تھا۔
مگر جیسے ہی اس کی وردی اتری جسے اس نے اپنی کھال کہا تھا تو اندر سے ایسامرغا نکل آیا جو تکہ شاپ پر الٹا لٹکا ہوتا ہے۔اسے زرداری نے آنکھیں دکھائیں اور وہ روہانسے لہجے میں تقریر کرتے ہوئے مستعفی ہو گیا، اب وہ عام شہری تھا مگراسکے دماغ کا فتور نکلا نہیں تھا، وہ باہر تو چلا گیا۔ پھر اس کا غرور اسے واپس لے آیا اور تھانوں، کچہریوں ، عدالتوںا ور ہسپتالوں کے پھیروںنے اس کا غرور خاک میں ملا دیا،ا سے اپنی ا صل ا وقات یا د آ گئی، وہ شکر کرے کہ کوئی اب بھی ا سکی مد دکرنے والی طاقت موجود تھی، ورنہ بھٹو کی پھانسی روکنے کے لئے دنیا کے ہر حکمران نے اپیلیں کیں ، ضیاا لحق نے کسی کی نہ مانی ا ور ججوں نے اسے پھانسی پر لٹکانے کا جو حکم دیا تھا ،ا س پر عمل ہو گیا۔اس سے بھی پہلے مولانا مودودی کو حکومت نے کسی وجہ سے پھانسی کی سزا سنا دی، ساری دنیا سے اپیلیں اس وقت بھی آئیں۔ لگتا تھا کہ حکومت وقت پر ان اپیلوں کا کوئی اثر نہیں ہے مگر عین پھانسی سے ایک رات قبل مودودی کو رہا کر دیا گیا، یہ ایک معجزہ تھا جو بھٹو کے ساتھ نہیں ہوا، مگر اب مشرف کے ساتھ ہو گیا ہے۔ مشرف پر لاتعداد مقدمے تھے۔ اسے ان کا سامنا کرنا چاہئے تھا، غداری کے مقدمے کو میںنہیں مانتا مگرا س کادفاع بھی عدالت میں ہونا چاہئے تھا۔
فرانس پر جرمنی کا قبضہ ہو گیا، ڈیگال بھاگ کر برطانیہ چلاگیا مگر مارشل پیتاں نے جرمنی کی غلامی قبول کی، اس نے بری بھلی فرانسیسی جمہوریہ برقرار رکھی، ان دونوں میں سے غدار کو ن تھا، ملک سے بھاگ جانیو الا یا ملک میں رہ کر فرانس کا علم بلند رکھنے والا ، مگر جنرل ڈیگال نے مارشل پیتان پر غداری کا مقدمہ چلایاا ورا سے پھانسی کی سزا سنا دی گئی،ا س سزا پر عمل اس لئے نہیںہوا کہ مارشل پیتاں عمر رسیدہ ہو چکا تھا لیکن وہ جیل میں ہی مر گیا۔میںمارشل پیتان کو بہادر سمجھتاہوں۔جس دھج سے کوئی مقتل کو گیا ، وہ شان سلامت رہتی ہے، پیپلز پارٹی اپنے لیڈر کو بہادرسمجھتی ہے، اس لئے کہ ا سنے پھانسی کے پھندے کو چوم لیا، سقراط کا نام کیوں زندہ ہے،ا سلئے کہ ا سنے بہادری کامظاہرہ کرتے ہوئے زہر کا پیالہ نوش کیا۔
پاکستان میں بھی بہادری ا ور بزدلی کی ایک واضح تعریف کرنی پڑے گی۔
مجھے افسوس ہے کہ میں مشرف کی طینت کو نہ سمجھ سکاا ورا سکے گن گاتا رہا۔مگروہ تو ایک مصنوعی بت تھا جو ایک جھٹکے میں پاش پاش ہو گیا۔ ہو سکتا ہے میں نے ا س کی اصلیت ا ور حقیقت پہچان لی ہو مگر اس کے چہرے سے نقاب اس لئے نہ نوچا کہ میری اس سے ذاتی دشمنی تھی،ا سنے میرے نوجوان ایم بی اے پاس بیٹے کو گرفتار کیا ،اسنے میرے والد کی جگہ میرے بڑے بھائی کو پکڑا، مشرف نے میرا ذاتی گھر بکوایا،ا ور جب میںنے ا س کی ایمرجنسی پلس کی مخالفت کی تو ا سنے ڈاکووںسے میری بیٹیوں جیسی بہووں کے گلے سے زیور نچوایا۔ میں یہ باتیں مشرف کے منہ پر کہہ چکا ہوں، یہ ا سکی کم بختی تھی کہ ا س نے مجھے اپنے ہاں ملاقات کے لئے بلوا لیا اور کہا کہ آپ ہماری مدد کریں، میںنے کہا ،میں ساری عمرا ٓپ کی اور پاک فوج کی حمایت کرتا رہا ہوں لیکن آپ نے میری عزت، میری شہرت، میرے خاندان کو برباد کر کے رکھ دیا۔پرو کارگل ہونے کی وجہ سے نواز حکومت میری مخالف ہو گئی، اسی کارگل کی وجہ سے بھارتی را نے مجھے نقصان پہنچانے کی کوشش کی۔ کارگل پر میری تحریریں نہ حکومت پاکستان کو پسند آئیں ، نہ حکومت بھارت کو ، اور دونوںنے مجھے سزا دی۔میرا خیال تھا کہ مشرف بڑے بڑے مقدمے بھگت لے ، پھر میں اسے کٹہرے میں لائوں گا مگر وہ پھر سے اڑ گیا، اڑا نہیں ،فرار ہو گیا۔ فرار نہیں ہوا، بزدلوں کی طرح بھاگ نکلا،پتہ نہیں وہ میرے علاوہ کس کس کا مجرم تھا، شریف خاندان کا ملزم تو تھا ہی اور یہ ان کا جگرا ہے کہ ا نہوںنے ا سے جانے دیا مگر کچھ عرصے تک اسے بھگا بھگا کرا س کا ذہن ٹھکانے ضرور لگا دیا۔
کہتے ہیں پاکستان میں سابق آرمی چیف کو سزا نہیں دی جا سکتی، ایک عدالت نے جنرل اسلم بیگ کو سیاستدانوں میں بھاری رقوم بانٹنے کے الزام میں طلب کیا، مگر وہ کمرہ عدالت سے یہ کہہ کر رعونت سے نکل گئے کہ جو فیصلہ کریںمجھے اس سے مطلع کر دینا ،ا ٓج تک اس کیس کا فیصلہ سامنے نہیں آ سکا۔ اسلم بیگ تو آرمی چیف تھا مگرا عجاز الحق ایک ا ٓرمی چیف کا بیٹا تھا،اسنے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کلاشنکوف لہرائی اور یہ چیلنج بھی کیا کہ کسی میںہمت ہے تو پکڑ کر دکھا ئے، منظور وٹو وزیر اعلی تھے، انہوںنے ا سے اندر کرنے کا حکم جاری کر دیا مگر ا ٓدھی رات کو بیگم ضیاالحق کا فون آ گیا کہ وہ تو تمہارا بھائی ہے،ا سے چھوڑ دو،او ر جس طریقے سے منظور وٹو نے ا سے چھوڑا، وہ کہانی آپ میرے پہلے کسی کالم میںپڑھ چکے ہیں۔اب جنرل کیانی کے کسی بھائی کی شامت آ ٓئی ہوئی ہے ، کوئی شخص شہیدوں کے پلاٹ کھا گیا ہے ، ا س مقدمے کا کوئی بھی جرات سے سامنا نہیں کر پا رہا۔
اگر سابق فوجیوں کو بچانے کا عمل جاری رہا توملک میں احتساب کا ڈھونگ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا، لوگ اس احتساب کے حق میں ہیں، بے لاگ، بے رحم احتساب چاہتے ہیں ،سو ل ا ور فوجی ہر ایک کا احتساب یکساں طور پر چاہتے ہیں مگر مشرف جس طرح بھاگ نکلا ہے،ا س سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے، ہماری ریاست کی ساری طاقت آئے روز بیرون ملک سے مجرموں کو گرفتار کرکے واپس لاتی ہے تاکہ وہ اپنے کئے کی سزا بھگتیں مگر مشرف کو یوں جانے دیا گیا جیسے آٹے سے نمک باہر نکالاجاتا ہے ، اب بے چاری ایان علی کو بھی جانے دو، چندلاکھ ڈالر اسمگل کرنے کی کوشش اتنابڑا جرم نہیں، جتنا ایک منتخب جمہوری حکومت کاتختہ الٹنا سنگین جرم ہے۔لوگ تو حیران ہیں کہ الطاف کو را کا ایجنٹ کہنے والے ہیرو بنے ہوئے ہیں۔میڈیا نے ان کو سرا ٓنکھوں پہ بٹھارکھا ہے، نئی پارٹی کی تشکیل کی دھوم مچی ہوئی ہے ا ور یہ سب اسی الطاف کے ساتھی ہیں جسے لٹیرا، پتھاریدار، ٹارگٹ کلر،اور بھارتی ایجنٹ کہا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ یہ اصحاب کس وقت زم زم سے نہا کر پوئتر ہو گئے اور کس نے انہیںپاک صاف ہونے کا سرٹیفیکیٹ دیا۔
اصل میں ہمارے کچھ غیر ملکی آقا پاکستانی عوام کو بیوقوف سمجھتے ہیں۔ یا بیوقوف بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔کاش! ہماری عدلیہ تو ان کاساتھ نہ دیتی ا ور مشرف کے بیرون ملک جانے پر پابندی کا فیصلہ ختم نہ کرتی، بھلے !ا سے کوئی اورسزا نہ بھی ہوتی مگر وہ دوبئی، لندن، مین ہیٹن میں برگر کھانے کا شوق تو پورا نہ کر سکتا ۔ا سکے لئے ضمیر کی مار ہی کافی تھی۔
مشرف کا فرار
Mar 19, 2016