اب تو بس کھسیانی بلی کھمبا نوچے والی بات ہی رہ گئی ہے۔ مشرف تو قانون، آئین، انصاف اور جمہوریت کی عملداری کا منہ چڑاتے ہوئے باہر نکل گئے اور اس عمل میں اپنی ہزیمتوں کا اعتراف کرنے کی متعلقین کو جرأت نہیں ہو رہی۔ وزیر داخلہ چودھری نثار کی اس تاویل کو کس کھاتے میں ڈالا جائے کہ ہم نے تو سپریم کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں مشرف کو جانے کی اجازت دی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلہ میں حکومت کو یہ راستہ دکھا دیا تھا کہ مشرف کی نقل و حرکت کے بارے میں انتظامی فیصلہ کرنا حکومت اور متعلقہ خصوصی عدالت کے اختیار میں ہے۔ اگر وہ مشرف کو ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کریں گے تو سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کی راہ میں حائل نہیں ہو گا اور پھر سپریم کورٹ نے تو اٹارنی جنرل کو یہ بھی باور کرا دیا تھا کہ ہم نے مشرف کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے لئے کوئی تحریری حکم جاری ہی نہیں کیا پھر آپ ہمارے کندھے پر رکھ کر بندوق کیوں چلا رہے ہیں؟ تو اٹارنی جنرل کی اس تاویل کو کس کھاتے میں ڈالا جائے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے عبوری حکم کے تحت مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا اور جب تک وہ حکم موجود ہے، ای سی ایل میں مشرف کا نام شامل رہے گا۔ اگر یہی حقیقت ہے تو آپ نے عدالت عظمیٰ کے اس عبوری حکم کی کاپی کیوں عدالت کے روبرو پیش نہ کی اور پھر حکومتی ترجمان قوم کو یہ بھی بتا دیں کہ کیا ای سی ایل میں شامل ہر فرد کا نام کسی عدالتی حکم کے تحت ای سی ایل میں آیا ہے۔ آپ نے اس عزم کے ساتھ مشرف کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا کہ آئین توڑنے والے کسی ایک جرنیلی آمر کو تو عبرت کی مثال بنا دیا جائے اور پھر سپریم کورٹ نے اس کے لئے آپ کو راستہ بھی دکھا دیا۔ پھر آپ مشرف کو ملک سے باہر جانے سے روک لیتے جیسے چودھری نثار علی خاں سپریم کورٹ کے حکم کے بعد انہیں پورا ایک دن ملک سے باہر جانے سے روکے رکھنے کا کریڈٹ لے رہے ہیں۔ ارے آپ نے تو پورا اہتمام کر کے مشرف کو ملک سے باہر جانے دیا ہے۔ پھر انہیں محفوظ راستہ دے کر پروٹوکول کے ساتھ ملک سے باہر بھیجنے کے زرداری حکومت کے اقدام اور آپ کے حالیہ اقدام میں کیا فرق ہے۔ بلاول کو اسی لئے تو ’’گو نواز گو‘‘ والی بڑھک لگانے کا موقع ملا ہے۔ آپ باہم مل بیٹھ کر ہی فیصلہ کر لیں کہ آئین توڑنے کے مجرم اور بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت کئی انسانی جانوں کے قتل کے نامزد ملزم مشرف کو آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کا مذاق اُڑاتے ہوئے بیرون ملک جانے دینے کے جرم میں آپ دونوں میں سے کون زیادہ قصور وار ہے۔ اور پھر مشرف تویہ بڑھک لگا کے گئے ہیں کہ میں کمانڈو ہوں، واپس ضرور آئوں گا۔ ہاں وہ واپس ضرور آئیں گے جب ان کے لئے ہتھکڑی اور پھندے کا سوچنے کی جرأت کرنے والا بھی یہاں کوئی نہیں ہو گا، بس ’’راج کرے گا خالصہ، آکی رہے نہ کو‘‘ والی ان کے لئے بہاریں ہی بہاریں ہوں گی۔
میں نے اپنے سینئر کولیگ سلیم بخاری صاحب کے ساتھ شرط لگائی تھی کہ نواز حکومت نے اپنے سابقہ دعوئوں کی بنیاد پر جس عزم کے ساتھ مشرف کے خلاف دفعہ 6 کے تحت آئین سے غداری کا کیس دائر کیا ہے اس کی بنیاد پر بھی اور مشرف کے ہاتھوں معطل، معزول اور پابند سلاسل ہونے والی عدلیہ اس کیس کی سماعت کر رہی ہے تو اس بنیاد پر بھی مشرف کے غداری کے جرم کی سزا سے بچ جانے کا اب کوئی امکان نہیں ہے۔ چنانچہ انہیں اب آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری کے تقاضوں کے تحت کیفر کردار کو پہنچنا ہی پہنچنا ہے۔ میرا یہ گمان اسی لئے یقین میں بدلا تھا کہ ہر دو فریقین آئین و قانون کی نگرانی اور انصاف کی عملداری کیلئے پُرعزم ہیں کیونکہ یہ خود جرنیلی آمر کے ماورائے آئین اقدام سے زخم خوردہ بھی ہیں۔ میں آج یہ اعتراف کرنے میں کسی انا کو حائل نہیں ہونے دوں گا کہ سلیم بخاری صاحب سے میں یہ شرط ہار گیا ہوں اور اس حقیقت کا قائل ہو چکا ہوں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے عدالت عظمیٰ کے احاطے میں دفن کیا گیا نظریہ ضرورت آج بھی کروفر کے ساتھ اپنی عملداری کا ثبوت فراہم کر رہا ہے چنانچہ ماورائے آئین اقدام والوں کے آگے آج بھی کسی کو پَر مارنے کی جرأت نہیں، وہ اقتدار میں ہوں یا نہ ہوں، ان کی دہشت سے جمہوریت اور انصاف کی عملداری کے داعیان پر مشتمل ’’رن‘‘ کانپ رہا ہے۔ نظریہ ضرورت کا مُردہ تو کفن پھاڑ کر قبر سے باہر آ گیا ہے اور چھلانگیں مار رہا ہے اس لئے آپ اب خفت مٹانے کیلئے آئین کی دفعہ 6 کو اس قبر میں دفن کر دیں۔ اگر عدالت عظمیٰ کے صحن میں کھودی گئی یہ قبر بوسیدہ اور ناکارہ ہو گئی ہے تو اب پارلیمنٹ ہائوس کے صحن میں قبر کھود کر اسے پختہ کر لیں اور پورے اہتمام کے ساتھ اس میں دفعہ 6 کا مُردہ دفنا دیں تاکہ یہ دفعہ آئندہ کبھی آپ کو آئین توڑنے اور جمہوریت کی بساط اُلٹانے والے کسی جرنیلی آمر کے لئے ہتھکڑی اور پھندے کا سوچنے کی کسی جرأت میں مبتلا نہ کر سکے۔
مشرف کے جانے کے بعد ہونے والے مخول ٹھٹھے میں گزشتہ روز شادی کی ایک تقریب میں پیپلز پارٹی کے ایک سیانے نے یہ پھبتی کسنا بھی ضروری سمجھا کہ مشرف کو ملک سے باہر جانے کا محفوظ راستہ دے کر کیا نواز حکومت نے خود کو بچا لیا ہے۔ تو جناب! اب تو بس اپنے اپنے بچائو کے لئے ہاتھ پائوں مارنے والا معاملہ ہی بنا ہوا ہے۔ زرداری صاحب اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دینے کے بعد اپنے اپنے بچائو کے لئے اپنی تابع فرمانی کا یقین دلاتے دلاتے شرف انسانیت کے تقاضوں کی آخری حد بھی عبور کر گئے ہیں۔ اگر ان کی شہید محترمہ نے جنرل اسلم بیگ کو تمغۂ جمہوریت دینے کا بسر و چشم اہتمام کیا تھا تو زرداری صاحب اب دور اندیشی والے مراحل طے کرتے کرتے موجودہ عسکری قیادت کی خدمت گزاری پر بھی آمادہ نظر آ رہے ہیں۔ اس کے لئے ان سے جو ہو سکے گا، کر گزریں گے۔ اور ہمارے ایک خیر خواہ کے بقول ہمارے ممدوح میاں نواز شریف تو انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کے علمبردار بن کر ڈنکے کی چوٹ پر ببانگ دہل مافی الضمیر کے اظہار میں یکتا قرار دئیے جانے لگے تھے۔ اب مشرف کو باہر بھجوانے کی ہزیمت اٹھاتے ہوئے وہ انٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی علمبرداری کیونکر تھامے رکھیں گے۔ ان کے دست راست چودھری نثار علی خاں کے نزدیک تو مشرف کا قانون و انصاف کا منہ چڑا کر ملک سے باہر چلے جانا کسی ہزیمت کے کھاتے میں ہی شمار نہیں ہوتا۔ پھر بھائی صاحب! ہمیں بھی اس جمہوریت کے غم میں اپنی صحت خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے جس میں جمہور کے حقوق و مفادات کے رکھوالے بس اپنی تنخواہوں اور مراعات میں مزید اضافے کا واویلا کرنے کے لئے منتخب فورموں پر یکسو اور یکجان نظر آتے ہیں۔ کیوں نہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کے ماورائے آئین و قانون فلسفے کو ہی اصل حقیقت اور آفاقی قانون تسلیم کر لیا جائے۔ جناب آج آپ خود ہی جمہوریت کے تحفظ و دفاع کے ضامن آئین اور قانون کو اگال دان میں پھینک دیں تاکہ آئندہ کسی کو آپ کی تسلی کے لئے یہ احساس دلانے کی ضرورت بھی محسوس نہ ہو کہ ’’آئین تو محض کاغذ کا ایک ٹکڑا ہے میں جب چاہوں اسے پھاڑ کر پھینک دوں۔‘‘ اِنا للہ و اِنا الیہ راجعون!