انسانی تاریخ ترقیاتی اعتبار سے تین ادوار میں تقسیم کی جاتی ہے۔500عیسوی سے پہلے کی انسانی تاریخ کو قدیم دور جاتا ہے ۔ 500عیسوی سے 1500عیسوی کے دور کو قرون وسطیٰ یعنی Middle Agesکہا جاتا ہے۔ اس کے بعد کے دور کو جدید دو ر میں شمار کیا جاتا ہے۔خود کو ترقی سے ہمکنار کرنے اور باقی دینا کو ترقی کا راستہ دکھانے کا سہرا مغربی ممالک کے سر باندھا جا تا ہے کیونکہ جدید دور حقیقی معنوں میں اٹھارہویںصدی کے وسط 1750ء میں صنعتی انقلاب سے شروع ہوا اسی کے سبب شہروں کی تعداد اور حجم میں اضافہ ہوا۔اس سے یورپ کی طرزِ زندگی دیہی کے بجائے شہری ہونا شروع ہوئی تو اس میں کچھ تبدیلیاں آئیں جیسے گھریلو اور رسمی تعلیم کی جگہ باضابطہ سکول، کالجز اور یونیورسٹیاں بنیں جہاں پر صرف امراء نہیں بلکہ عام آدمی کی پہنچ ممکن تھی اور وہاں سے تعلیم یافتہ لوگوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنی کامیابیاں حاصل کیں کہ ترقی اور یورپ دو مترادف الفاظ بن گئے۔
اسی مشینی اور شہری دور میں انسان کی سماجی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ معاشرے میں منفی رجحانات پنپنے لگے، جیسے خاندان بحیثیت سماجی ادارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا ۔ لوگوں میں مذہبی رجحان نہ صرف کم ہوا بلکہ پادری کے حاکمانہ رویوں کی وجہ سے لوگ مذہب سے تائب اور دور ہوتے گئے۔ اسی طرح مزدوری کی بہت زیادہ ڈیمانڈ ہونے کی وجہ سے خاتون بحیثیت ورکر کے سامنے آئی اور معاشی طور پر مستحکم ہوگئی۔ اسی شہری دور میں یورپ میں جمہوریت کو وسعت اور دوام حاصل ہوا کیونکہ شہر کے اندر رہنے والے لوگ اپنے حقوق کے لئے با آسانی نہ صرف اکٹھے ہو سکتے ہیں بلکہ تحریک بھی چلا سکتے ہیں۔مادی ترقی کے اس دور میں پہلے یورپ اور پھر امریکہ میں کچھ ایسی چیزیں انفرادی آزادی اور جمہوریت کے نام پر رونما ہوئیں،جن کو دیگرروایتی ممالک بالخصوص بر اعظم ایشیا انسانی ترقی سے متصادم سمجھتے ہیں جیسے سوسائٹی میں جنسی بے راہ روی ، نشہ کا بے دریغ اور کھلے عام استعمال ، بوڑھے ما ں باپ سے لاتعلقی ، شادی کے بغیر بچوں کی پیدائش جیسی چیزوں کو قانونی اور اخلاقی طورپر جائز سمجھا جانے لگا۔ ان تمام عوامل کو بھی مغربی ممالک کے لوگ Post Moderenization کا حصہ سمجھتے ہیں ۔
یورپی ممالک اور امریکہ کے بعد اب چین وہ ملک ہے جو ایک نہ صرف معاشی بلکہ سماجی طاقت بصورت ِ مشرقی طرزِ زندگی ابھر رہا ہے۔ چین کی حکومت جدید ترقی یعنی ماڈرنائزیشن کے نام پر مغربی دنیا میں برپا ہونے والی منفی سماجی اثرات کو جذب کرنے کی مخالف ہے اور اس حوالے سے باقاعدہ پالیسیاں تشکیل دی گئیں جیسے مغربی ممالک میں اگر کسی بچے کو اس کے ماں باپ کسی بھی کام کرنے سے روکیں تو وہ بچہ پولیس بلا سکتا ہے جبکہ چین میں اگر کوئی بوڑھا پولیس کو یہ شکایت کر ے کہ اس کی جوان اولاد اس کی دیکھ بھال نہیں کرتی تو اسے گرفت میں لے لیا جاتا ہے۔ اسی طرح سوشل میڈیا کے ہیجان انگیز مواد کو روکنے کیلئے اس کے استعمال پر نہ صرف پابندی ہے بلکہ چین میں ایسے افراد جو ویڈیو گیمز اور کمپیوٹر کے استعمال میں ایک نشہ کی طرح مبتلا ہو جاتے ہیں اور جسمانی و ذہنی صحت دائو پر لگا لیتے ہیں ان کے علاج کے لئے باقاعدہ Rehabilitationمراکز قائم کئے گئے ہیں ۔ ترقی کے المیات میں ایک لوگوں کا تنہائی کا شکا ر ہو کر خود کشی کو گلے لگانا شامل ہے مگر چین میں لوگوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنے کی بجائے ایسے افراد جن میں خودکشی کے رجحان کا خدشہ ہو ان کا باقاعدہ علاج کیا جاتا ہے،واضح رہے کہ مغربی ممالک میں خود کشی جیسی قیامت سے پہلے قیامت ڈھانے والے رجحان کی طرف مائل لوگوں کوان کے رحم وکرم اور محض نشہ سے غم غلط کرنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔باوجود اسکے کہ وہاں نہ تو بے روزگاری ہے نہ صحت کی سہولتوں کی کمی اور خاندانی نظام نہ ہونے کی وجہ سے لوگ تنہائی کی بیماری کا شکار ہوتے ہوئے خودکشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
چین معاشی ، سائنسی اور تعلیمی ترقی میں کسی طور مغربی ممالک سے کم نہیں رہا مگر عقلمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترقی کے نام پر سماجی اور انفرادی تنزلی کو قبول نہیں کرتا، یوں اس نے ایک پالیسی اپنائی ہے کہ وہ ماڈرنائزیشن کی طرف تو سفر جاری رکھے گا مگر مغربی ماڈرنائزیشن کے نام پر سماجی برائیوں سے اپنے معاشرے کو پاک رکھے گا چین کی اس پالیسی کو بانسوں کا پردہ Bamboo Curtainکا نام دیا جاتا ہے واضح رہے کہ مغربی ممالک نے روس کے اشتراکیت کے نظام کو روکنے کیلئے لوہے کا پردہ Iron Curtainکی پالیسی کو اپنایا تھا اب دیکھنا یہ ہے کہ چین ترقی کے نام پر ہونے والے سماجی بحران کو روکتے ہوئے ترقی کر کے دنیا کو ایک ایسا ماڈل دے سکتا ہے یا نہیں جس میں صرف انسان ہی نہیں انسانیت بھی ترقی کرے ۔ انسانیت کی ترقی کیلئے جدید قانون اور طرز زندگی نہیں قدیم سماجی اقدار کو برقرار رکھنا ہے۔