سر اٹھا کے جینے کا موسم

Mar 19, 2016

سارہ لیاقت....پیغام امید

ہمارے ہاں آج کل ایک عجب رسم چل نکلی ہے اپنے گناہوں کا بوجھ کسی اور کے کاندھے پر رکھ کر خود ہر الزام سے بری الذمہ ہو جانے کی، اپنے حصے کا گند کسی دوسرے کی جھولی میں ڈال کے خود کو پاک صاف کہلانے والوں کا دستور بھی نرالا ہے کہ کہیں کوئی ایسا شخص ڈھونڈ نکالو جس کا دامن پاک ہو اور سب ناکردہ گناہ اسکے کھاتے میں ڈال کے خود ہر الزام سے بری الزمہ ہو جائو۔ ایسے ہی ایک حالیہ واقعہ نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کردیا جس کے تانے بانے ان حکومتی ایوانوں کی ڈوریں ہلانے والوں سے ملتے ہیں جو اپنے آپ کو ہر قانون اور آئین سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
ہمارے ہاں کے ایک نامور صحافی اور ٹی وی اینکر نے ہمارے سیاستدانوں اور بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے مختلف محکموں میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے آئے دن کوئی نہ کوئی چونکا دینے والے انکشافات کرتے رہتے ہیں اپنے ایک حالیہ پروگرام میں فارن آ فس کی بیگمات کی پرائیویٹ این جی او جو کہ فارن آفس کے اندر ہی کام کرتی ہے کے حوالے سے کچھ تہلکہ خیز انکشافات کئے جو ہمیشہ کی طرح انکے بقول بابو لوگوں سے ہضم نہ ہوئے اور بجائے یہ کہ ان انکشافات پر کوئی تحقیقات کی جاتیں ، فارن آفس اس حوالے سے کوئی ایکشن لیتا انہوں نے اپنے ہی ایک گریڈ اٹھارہ کے جونئیر آفیسر کو میڈیا کو راز افشا کرنے کا مجرم ٹھہرا دیا۔ حالانکہ جس عرصے میں فارن آفس کے حوالے سے کہانیاں منظر عام پر آئیں وہ افسر اس وقت اپنے عہدے پر کام نہیں کر رہے تھے بلکہ دو سال کی چُھٹی پر تھے اور انکے پاس کوئی ایسی سرکاری دستاویزات نہیں تھیں جن کو جواز بنا کر ان کیخلاف انکوائری کا حکم دیا جاتا۔ انہوں نے دسمبر 2013ء سے لے کر دسمبر 2015ء تک چُھٹیاں لے رکھی تھیں اور فارن آفس کے تمام معاملات سے بالکل لاتعلق تھے۔
دفتر خارجہ کے حوالے سے منظر عام پر آنیوالے دونوں حالیہ سکینڈلز اپنی نوعیت کے کچھ الگ ہی چونکا دینے والے واقعات ہیں پاکستان میں این جی اوز کی فنڈنگ پر آئے روز کوئی نہ کوئی انکشافات ہوتے رہتے ہیں کچھ عرصہ قبل وزیر داخلہ چوہدری نثار نے نوٹس لیتے ہوئے کئی این جی اوز کیخلاف کاروائی کا حکم دیا۔ اینکر صاحب جو کہانی سامنے لے کے آئے ہیں وہ دفتر خارجہ کی بیگمات کی این جی او، پاکستان فارن آفس ویمن ایسوسی ایشن (پی ایف او ڈبلیو اے) کو ملنے والے فنڈ کے بارے میں ہے جنہوں نے چیریٹی کے نام پر اپنی این جی او کیلئے 26 ممالک کے سفارت خانوں سے فنڈ حاصل کئے جس میں بھارت کا سفارتخانہ بھی شامل ہے اور بعد میں مبینہ طور پر جو کہ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے امور خارجہ کی ایم این اے بیگم کی این جی او کو بھی حصہ دیا گیا اور صرف یہ ہی نہیں بلکہ اربوں روپے کا سرکاری کمرشل پلاٹ این جی او کے نام پر حاصل کر کے آگے ایک جاننے والے روٹس سکول کے مالک کو اونے پونے داموں میں بیچ دیا گیا۔
جہاں تک کرپشن کی بات ہے تو اس عفریت نے ہمارے پورے ملک اور سرکاری محکموں کو اس طرح سے جکڑ رکھا ہے کہ جس محکمے کی طرف نظر کرو وہاں سے عجب کرپشن کی غضب کہانی ہی نکلتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف ہماری معیشت بالکل تباہ ہو چکی ہے بلکہ وہ کشکول جس کو توڑنے کی اسحاق ڈار صاحب کبھی باتیں کیا کرتے تھے اب باہر کے ملکوں سے بھیک مانگ مانگ کر اور آئی ایم ایف کے آگے جھولی پھیلا کر پوری قوم کو اربوں روپے کا مقروض کر چکے ہیں۔ غیر ملکی سفارتخانوں سے فنڈز لینے کا معاملہ اتنا چھوٹا نہیں ہے کہ اس کو نظر انداز کر دیا جائے ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعظم صاحب خود اس کا نوٹس لیتے اور اس کہانی کے تمام ذمہ دار کرداروں کو نہ صرف عوام کے سامنے لایا جاتا بلکہ ان کیخلاف بھرپور کارروائی بھی کی جاتی جنہوں نے ہمارے ملکی وقار کو کتنی آسانی سے چند ڈالروں کی خاطر روند ڈالا لیکن ہمیشہ کی طرح ہُوا یہ کہ اپنے ہی ایک جونیئر افسر پر سارے معاملے کا نزلہ گرا دیا گیا، الزامات کی جو فہرست اسکے ہاتھ میں تھما دی گئی ہے اس میں یہ تک نہیں بتایا گیا کہ آخر کونسی ایسی دستاویزات ہیں جو بقول فارن آفس کے متذکرہ افسر نے میڈیا کے حوالے کیں۔ اپنے ہی افسر کیخلاف انکوائری کا حکم خود اس بات کی دلیل ہے کہ دال میں صرف کچھ کالا ہی نہیں بلکہ یہاں تو پوری دال ہی کالی ہے۔
اس افسر نے کرپٹ مافیا کے آگے جھکنے کی بجائے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہو ئے انصاف کے حصول کیلئے نہ صرف عدالت کا رُخ کیا ہے بلکہ اس حوالے سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیٹیشن بھی داخل کی ہے جس میں تمام متعلقہ لوگوں کو فریق بنایا گیا ہے۔ متذکرہ اینکر نے بھی عدالت میں فریق بننے کی درخواست دائر کر دی ہے ۔ ہمیں ان لوگوں کے اس اقدام کو سہرانا چاہیے تاکہ سچ کیا ہے لوگوں کے سامنے آسکے اور ملکی وقار کا معاملہ دیگر ایشوز کی طرح صرف لفظوں کی بازگشت ہی نہ بن کے رہ جائے اور کسی کیخلاف ہونیوالی اس ناانصافی پر ان کا ساتھ دینا اس لئے بھی ضروری ہے کہ آخر ہم عوام کب تک کٹھ پتلی بن کے ناچتے رہیں گے اور اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر اپنی زبان بند رکھ کے اقتدار کے نشے میں چُور وقت کے فرعونوں کے جائز اور ناجائز کاموں کو تقویت پہنچاتے رہیں گے۔ اب وطن میں گردن جھکانے کا نہیں سر اُٹھا کے جینے کا موسم آ گیا ہے۔

مزیدخبریں