س: آزادی اظہار کے معاملے میں کون سی حکومت زیادہ لبرل رہی؟
مجید نظامی: میری رائے میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کا دور صحافت کے حوالے سے سب سے زیادہ تھا۔ انہوں نے صحافت کو پابند نہیں کیا‘ مگر نواز شریف‘ بینظیر نے اپنے ادوار میں اسکے الٹ کام کیا بینظیر بھٹو بھی ایسے ہی’’شغل‘‘ میں مصروف رہیں۔ صدر ایوب خان کے دور میں تو ’’ پابندی صحافت‘‘ عروج پر تھی‘ ان کو تو سوائے صحافت کو پابند کرنے کے اور کوئی کام ہی نہیں تھا۔ بہر حال ان تمام رکاوٹوں کے باوجود صحافت خود کو آزاد کرانے میں کسی حد تک کامیاب ہو ہی گئی لیکن جہاں تک حکومتوں کا تعلق ہے تو وہ کبھی اپنی روش ترک نہیں کرتیں۔ موجودہ (پرویز الہٰی) حکومت نے بھی سابقہ حکومتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ’’نوائے وقت‘‘ کے اشتہارات بند کر دیئے۔ گذشتہ پورا سال ہمارے اشتہار بند رہے۔ یہ پنجاب حکومت کے کہنے پر بند کئے گئے‘ پنجاب ہی نہیں وفاق میں اشتہارات بھی بند کر دیئے گئے لیکن چونکہ اب کمرشل اشتہاروں کا دور ہے اور کمرشل اشتہاروں کا ریٹ سرکاری اشتہارات سے 3 گنا زیادہ ہوتا ہے‘ اس لئے ہمیں کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا‘ اب ماضی کی طرح حکومتی دباؤ کے ہتھکنڈے نہیں چل سکتے۔ آجکل کمرشل اشتہاروں کا دور ہے‘ اس میں سرکاری اشتہارات کی اہمیت بے معنی ہو کر رہ گئی ہے اس لئے حکومتی دباؤ کا یہ ہتھکنڈا غیر موثر ہو چکا ہے۔
س: کیا تحریر کو غیر موثر کرنے کیلئے بھی ہتھکنڈے استعمال کئے جا رہے ہیں اورکیا اس سے واقعی تحریر غیرموثر ہو رہی؟
مجید نظامی: آجکل آپ اکثر صحافیوں کے اغوا، قتل یا غائب ہونے کی خبریں سن رہے ہیں، یہ بھی دبائو ڈالنے کا ایک طریقہ ہے کہ آپ ہماری ہدایات پر چلیں ورنہ نقصان اٹھائینگے۔ ایسی صورتحال ہو تو لوگ محتاط ہو جاتے ہیں اور اگر آپ کھل کر کسی کیخلاف آواز نہ اٹھا سکیں تو یہ تحریر کو غیر موثر بنانے کے مترادف ہی ہوتا ہے۔
س: کیا صحافت آج بھی مشن ہے یا کاروبار بن چکا ہے؟
مجید نظامی: میں ’’ نوائے وقت‘‘ کے حوالے سے تو یہ کہوں گا کہ ہمارے لئے یہ آج بھی مشن ہے اور مشن اس طرح کہ پاکستان کو قائداعظمؒ کے خواب کیمطابق اسلامی جمہوریہ فلاحی مملکت بنایا جاسکے۔ میں سیاست کیساتھ ساتھ قانون کا طالب علم بھی رہا ہوں، اس لئے قانون کی پاسداری میرے خمیر میں شامل ہے، میں نے ہمیشہ جائز قوانین کی پابندی کی ہے لیکن اس کے باوجود آپ ہمارے اداریے پڑھیں، وہ آپ کو غیر موثر نظر نہیں آئینگے، ان میں سے آپکو ہمارا مشن جھلکتا ہوا محسوس ہوگا۔ صحافت کاروبار بھی ہے لیکن صرف اس حد تک کہ آپکی مشینری اپنی ہو تاکہ جدید دور میں اخبارات کا مقابلہ کرسکیں، اسی طرح عمارت بھی آپ کی اپنی ہو تاکہ کرائے کے جھنجھٹ سے بچ سکیں، اس حد تک تو یہ کاروبار ہے لیکن اسکے علاوہ یہ ہمارے لئے صرف ایک مشن ہے اور اس کیلئے ہم ہر قربانی دینے کو تیار ہیں۔
س: پاکستانی اخبارات بیرونی ممالک کے اخبارات کی طرح حکومتوں کو ہلانے یا گرانے کا سبب نہیں بن رہے، اس کی کیا وجہ ہے؟
مجید نظامی: آج ذاتی مفادات پہلے اور قلم کی حرمت پیچھے جاچکی ہے لیکن بعض اخبارات آج بھی اسی طرح ڈٹے ہوئے ہیں جیسے ’’ ڈان‘‘ جس نے بلوچستان کے بارے میں ایک سچی خبر شائع کی جس پر حکومت ناراض ہوگئی، اسے خبر کی تردید کرنے کو کہا گیا، انکار پر اشتہارات بند کردیئے، اسکے باوجود ڈان اپنے موقف پر ڈٹا رہا اسی کو قلم کی حرمت کا تحفظ کہتے ہیں۔ کئی اخبارات ایسے بھی ہیں جو اسکے متضاد کام کررہے ہیں، ان کیلئے ذاتی مفادات اہم ہیں، لیکن میں ان کا نام نہیں لوں گا، کیونکہ سبھی ان سے واقف ہیں۔
س: زیادہ تر اخبارات دو طرح سے اپنے مفادات حاصل کررہے ہیں، ایک تعریف کے ذریعے دوسرے تنقید کے ذریعے… کیا یہ درست ہے؟
مجید نظامی: آپ کا تجزیہ سو فیصد درست ہے۔
س: کیا ایسی صورتحال میں ایک عام صحافی حقیقی کردار ادا کرسکے گا اور کیا آپ اسکے کردار سے مطمئن ہیں؟
مجید نظامی: ایسا تبھی ممکن ہے جب اکثر اخبار اپنا صحیح کردار ادا کریں جو اس وقت نہیں ہورہا، صحافی کے کردار سے مطمئن ہونا بھی تب تک ممکن نہیں، جب تک کہ وہ اپنا کردار بطریق احسن ادا نہیں کرتا۔
س: ہر حکومت آزادی صحافت کا نعرہ لگاتی رہی، مگر اپنے مفادات کو نقصان پہنچنے پر مشتعل ہوگئی، آج کی حکومت بھی آزادی صحافت کا دعویٰ کررہی ہے، یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے؟
مجید نظامی: یہ آزادی صحافت اس کیلئے ہے جو آزادی کی قیمت دینے کو تیار ہے جو تیار نہیں اس کیلئے کوئی آزادی نہیں ہے۔ یہ آزادی حکومت نے ہمیں پلیٹ میں رکھ کر نہیں دی، اس کیلئے صحافیوں نے بہت قربانیاں دیں، اخبارات بند کروائے، اشتہارات کی بندش کا وار سہا، قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے، تب یہ آزادی ملی۔ موجودہ دور گلوبلائزیشن کا ہے۔ اگر ایک اخبار خبر نہ دے تو کئی چینل اسے دے دیتے ہیں لیکن بعض حکمران اپنے معاملات کے بارے میں اتنے حساس ہوتے ہیں کہ وہ چینل پر چلنے والی خبر کی تو پروا نہیں کرتے، مگر وہ خبر کسی اخبار میں چھپ جائے تو اسکے پیچھے پڑجاتے ہیں۔
س: ہمارے ہاں بے تحاشا نئے اخبارات اور الیکٹرانک چینل آرہے ہیں، ان حالات میں آپ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
مجید نظامی: اس وقت اخبارات اور چینلز کی بھر مار ہے۔ صبح اخبارات کا ڈھیر لگا ہوتا ہے جو ایک صحافی کو لازماً دیکھنا پڑتے ہیں، ابھی ان میں وہ اخبارات شامل نہیں ہوتے جو اشتہارات لیکر دوسرے اخبارات کی آمدنی شیئر تو کررہے ہوتے ہیں لیکن صرف ڈمی کی صورت میں چھپتے ہیں۔ اس سلسلے کو روکنے مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔ ایسا گروپ، اخبار یا چینل جو بہت بدنام ہے، وہ بھی کبھی کبھی اچھی خبر دے دیتا ہے۔ (جاری)