اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سوشل میڈیا پر گستاخانہ پیجز کے معاملے پر تمام متنازعہ پیج بلاک کرنے کا لائق تحسین حکم جاری کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی شان میں گستاخی کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران آبدیدہ ہوتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ ”جس دن سے یہ پٹیشن میرے سامنے آئی ہے، خدا کی قسم میں نہیں سویا، ہم آئین و قانون پر عملدرآمد نہ کر کے خود ممتاز قادری پیدا کرتے ہیں، یہ مسئلہ ہمارے ایمان کا مسئلہ ہے، ایف آئی اے والو، پی ٹی اے والو، وزارت آئی ٹی والو، وزارت داخلہ والو، فوج والو، بتاو¿ آقا (صلی اللہ علیہ و سلم )سے کس طرح شفاعت مانگو گے۔ اتنی گستاخی کے بعد ہم ابھی تک زندہ کیوں ہیں، اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اگر اپنے آقا (صلی اللہ علیہ و سلم ) ، ازواج مطہرات، اصحاب رسول اور قرآن کریم کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے مجھے اپنے عہدے کی قربانی بھی دینا پڑی تو دے دوں گا، مگر اس کیس کو ہر صورت منطقی انجام تک پہنچاو¿ں گا، اس کیس کا مدعی پورا پاکستان ہے، اگر آقا (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی عزت و ناموس کے لیے سوشل میڈیا کو بند بھی کرنا پڑا تو اللہ کی قسم حکم جاری کر دوں گا۔ ویلنٹائن ڈے منانے والوں کو آقا (صلی اللہ علیہ و سلم ) سے یہ گستاخی کیوں نظر نہیں آرہی، ہم خود قوم کو لاقانونیت کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں، اگر پی ٹی اے سوشل میڈیا میں گستاخانہ مواد کو نہیں روک سکتا تو پی ٹی اے کو ہی ختم کر دیا جائے، یہ عدالت سوشل میڈیا میں کائنات کی مقدس ترین شخصیات کی گستاخی کے خلاف آپریشن رد الشیطان شروع کر رہی ہے، جنہوں نے گستاخی کی اور جو لوگ اس کا تماشا دیکھتے رہے ان سب کے خلاف کارروائی ہوگی، اس معاملے میں بیوروکریسی پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ میں آج مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو دہشت گرد قرار دیتا ہوں، اس سے بڑی دہشت گردی اور کیا ہوگی۔ جبکہ میرا سب کچھ، میرے ماں باپ، میری جان، مال، اولاد، نوکری سب اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر قربان ہیں“۔ اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست گزار کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ”طارق اسد صاحب!میں آپ کے توسط سے ” علماءسے ہاتھ جوڑ کر اپیل کرتا ہوں کہ خدا کے واسطے اپنے مسلکی اور فروعی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر آقا (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی عزت و حرمت کے تحفظ کے لیے متحد ہوجائیں، یہ مسئلہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، علماءسے اپیل کرتا ہوں کہ کچھ عرصے کے لیے اپنی دکانیں بند کردیں، کیونکہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم ) کی ناموس کی حفاظت سے زیادہ دین کی اور کوئی خدمت نہیں ہوسکتی“۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے قرار دیا کہ میں نے تکنیکی باریکیوں میں نہیں پڑنا چاہتا، پورا سوشل میڈیا بند کرنا پڑے تو کروں گا، بھینسے ہوں یا گینڈے یا کتے یا سور سب بلاک ہونے چاہئیں اور اگر انہیں بلاک نہیں کرسکتے تو پی ٹی اے کو بند کردیں۔جسٹس شوکت عزیز کا سماعت13 مارچ تک ملتوی کرنے سے قبل مزید کہنا تھا کہ وزیر داخلہ اس برائی کے خاتمے کے لیے اپنی سربراہی میں کچھ اقدامات کرےں خواہ پورے سوشل میڈیا کو بند ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے کو اس گھناونی سازش کے خلاف سخت ایکشن لینے کی ہدایت جاری کی ، جس پر چیئرمین پی ٹی اے نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ متنازعہ مواد کے حامل چھ بیجز کوبلاک کردیا گیا ہے۔ گستاخانہ مواد کی تشہیر کا مقدمہ بھی تھانہ رمنا میں درج کرلیا گیا ہے، مقدمے میں توہین عدالت کی دفعات شامل کی گئی ہیں، مقدمے کی تفتیش پولیس اور ایف آئی اے مشترکہ طورپر کریں گی۔ مقدمے میں شامل افراد کے نام بھی ای سی ایل میں ڈالنے کے معاملے میں بھی پیش رفت ہوئی ہے اور ایف آئی اے نے فیس بک کی انتظامیہ سے بھی رابطہ کیا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے عدالت میں وزیراعظم کا حلف نامہ پڑھ کر سنایا،اور کہا کہ الیکٹرانک میڈیا پر فحاشی کا طوفان برپا ہے مصنوعات کی فروخت کے نام پر قوم کی عزت بیچی جارہی ہے ۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ بالخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موجود ”گستاخانہ مواد“ کو موثر طریقے سے بلاک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی، انہوں نے واضح کیا کہ ہم اس معاملے پر ہر حد تک جائیں گے اور اگر سوشل میڈیا نے تعاون کرنے سے انکار کیا تو اس طرح کی تمام سوشل ویب سائٹس کو مکمل طور پر بلاک کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے گستاخانہ مواد کو پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی جن سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ عالمی برادری کو اس بات کا احساس کرنا ہوگا کہ کسی بھی طریقے سے کسی مذہب کو نشانہ بنانا ناقابل برداشت ہے۔“ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سخت حکم کے بعد گزشتہ روز سینٹ میں بھی سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے خلاف مذمتی قراد داد متفقہ طور پر منظور کرتے ہوئے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے ۔
سوشل میڈیا پر گستاخانہ خاکوں پر مشتمل پیجز سے پورے عالم اسلام کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے سخت نوٹس لے کر پورے عالم اسلام کے مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ اسلام دشمن کافروں نے سوشل میڈیا پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ناپاک جسارت کرکے عالم اسلام کے مسلمانوں کی غیرت کو للکارا ہے۔ اسلام دشمنوں کی اس ناپاک حرکت سے ان کی منافقت اور خیانت کا پردہ چاک ہوگیا ہے کہ اسلام دشمنی میں یہودونصاریٰ آپس میں متحد اور معاون و مددگار ہیں۔ مغرب کی ہرچیز بدل چکی ہے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے طور طریقے بدل چکے ہیں ان کے رویے اور اقدار بدل چکے ہیں ۔ من پسند خیالات مذہب میں شامل ہوچکے ہیں۔ اخلاقی اقدار کا ملیامیٹ کردیا گیا ہے۔ طرز زندگی اور سوچ بچار کے تمام زاویے بدل چکے ہیں لیکن مغرب کی اسلام دشمنی میں ذرہ برابر فرق نہیں آیا ۔ سوشل میڈیا جسے آزادی رائے کے اظہار کا نام دیا جاتا ہے، کے بارے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیسی آزادی کا اظہار ہے جو عیسائیوں ،یہودیوں، ہندوو¿ں اور دیگر مذاہب کا مذاق اڑانے کی اجازت تو نہیں دیتی لیکن اس کے سائے میں اربوں افراد کی ہر دل عزیز شخصیت کا مذاق اڑا کر مسلم امہ کو مشتعل کیا جاتا ہے؟ یقینا یہ مسلمانوں اور اسلام کو بدنام کرنے کی سازش ہے، اس کا مقصد صرف اتنا ہی ہے کہ ان خاکوں کے ذریعے مسلمانوں کو طیش دلایا جائے اور پھر ان کے ردعمل کو ثبوت بنا کر ان پر دہشت گرد کا لیبل لگادیا جائے۔ان توہین آمیز خاکوں کے معاملے پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا مثالی ایکشن، اراکین سینٹ اور اہل اسلام کا جوردعمل سامنے آیا وہ ایمان افروز اور حوصلہ افزاءہے اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں آج بھی ایمان کی رمق موجود ہے، اور مسلمانوں کو جان مال عزت سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی حرمت پیاری اور عزیز ہے ۔ آج پورے پاکستان کے مسلمانوں کی یہی آواز ہے کہ سوشل میڈیامیںگستاخانہ پیجز کو بلاک کرتے ہوئے اس گھناﺅنے جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف سائبرکرائم ایکٹ کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جائے۔