سیاسی بھرتیاں اورسفید ہاتھی ادارے

پہلے یہ قصہ عام تھا کہ سٹیل ملز سفید ہاتھی ہے جو غریبوں کے ٹیکس پر پل رہا ہے۔ ایک کہاوت ہے (بندہ جوڑے پلی پلی‘ رام لوڑھے کُپے) گویا ملک کے عوام ٹیکس دیتے ہیں‘ ٹیکس ہی نہیں دیتے بلکہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھتے ہیں ان کی خون پسینے کی کمائی سے گورنمنٹ کا خزانہ بھرتا ہے۔ پھر اس خزانے کو پہلے تو غیر ملکی سیر سپاٹوں میں اڑایا جاتا ہے۔ ابھی اس کے زخم ہرے نہیں ہوتے کہ صوابدیدی حکمرانوں کے اختیارات کی باری آ جاتی ہے جہاں پر اس ٹیکس کی رقم کو ذاتی جاگیر سمجھ کر لٹایا جاتا ہے۔ دو عشرے پہلے تو یہ ظلم تھا کہ پلاٹ‘ پرمٹ‘ تحصیلداری‘ تھانیداری‘ لفافہ سیاست کا جزو لازم تھے اور حکمران ان کی بندر بانٹ کر کے اپنے ممبران صوبائی و قومی کو خوش رکھتے تھے۔ نہ میرٹ تھا نہ کوئی ضابطہ یا اصول۔ ہم سیاسی لوگوں کے بھانجوں‘ بھتیجوں‘ بیٹیوں میں سے ایسے بھی دیکھے ہیں جو عام حالات میں کوئی مویشی بھی جنگل میں چرانے کا رسک نہ لیتے۔ وہ تحصیلدار بھی بنے اور سیاسی رشوت کے عوض آگے مجسٹریٹ بھی بنے اور اہم عہدوں پر براجمان رہے۔ صوابدیدی اختیارات سے جب کچھ بچا کھچا رہ گیا تو سٹیل ملز‘ پی آئی اے‘ ریلوے کی باری لگ گئی۔ان کی بربادی کی بڑی وجہ تو غیرضروری‘ غیر قانونی اور میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہیں جو ووٹ بنانے کے لئے ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئیں۔ غیر ضروری بھرتیوں کا انجام اس پراجیکٹ کی بربادی کا سبب بنا جس ادارے کے سربراہ کی تنخواہ 8 لاکھ سے لے کر 16 لاکھ تک ہو جہاں ایک ملازم کی سیٹ ہو اور اس کی جگہ دس افراد بھرتی کئے جائیں تو وہ کیا منافع دے گی۔ پی پی پی کے یہ تحائف آج تک پاک دھرتی بھگت رہی ہے۔ یہ تو اِتراتے پھرتے ہیں کہ ہم نے نوکریاں دیں اگر یہ جرم ہے تو ایسا جرم ہم روز روز کریں گے۔ کیا انہوں نے اپنی ذاتی جاگیر پربھی کبھی اتنے غیر ضروری ملازم رکھے۔ نہیں ہرگز نہیں۔ دور اقتدار میں توان کے‘ گھروں میں سرکاری ملازم کام کرتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو نوکری بھی کرتے ہیں اور اپنا ذاتی پرائیویٹ کاروبار بھی۔ نوکری صرف تنخواہ لینے کے لئے ہوتی ہے۔ اب جب یہ حشر ساماں ہو گا تو سٹیل ملز کیسے چلے گی۔ سٹیل ملز کا قصہ آج کا نہیں ہے۔ یہ آغاز سے بھوکی ننگی ہے۔ اسے ہر تیسرے‘ چوتھے ماہ چند ارب کا نوالہ دیا جاتا ہے جس سے ملازمین کی تنخواہیں پوری ہوتی ہیں۔ پھر اگر حکومت نج کاری کا اعلان کرتی ہے تو سب سے پہلے شور بھی پی پی پی ہی کی طرف سے اٹھتا ہے کہ ہم نے نوکریاں دیں یہ بے روزگار کر رہے ہیں اور طوفان بپا ہو جاتا ہے۔ اب سٹیل مل سے نکلیں تو پی آئی اے کی باری آ جاتی ہے۔ جو اس وقت 300 ارب کے خسارہ سے اوپر جا رہی ہے۔ اگر اصلاح احوال کی طرف جائیں تو ہڑتالیں شروع ہو جاتی ہیں۔ دھرنے شروع ہو جاتے ہیں اورچیخ و پکار کا سماں شروع ہو جاتا ہے۔ پھر رونا دھونا کہ بے روزگاری ہو جائے گی‘ کبھی یہ بھی سوچا کہ اس قدر غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں۔ واپڈا کی لائن لاسز کا چرچا عام ہے وہاں پرغیرضروری بھرتیاں کی گئیں۔ آپ ایک پرائیویٹ انڈسٹری کا نام لے لیں جہاں پر اگر 100 کلرک کام کر تے ہیں تو کمپیوٹر کا دور آنے سے وہ دس باقی رہ گئے جبکہ ان سرکاری اداروں میں جہاں دس آدمیوں کی ضرورت تھی وہاں سو کو بھرتی کر لیا گیا۔ پاکستان ریلوے پی پی پی کے دور میں اے این پی اے کے پاس تھی جہاں یہ حشر تھا کہ ہر چوتھے روز ریلوے وزیر کا بیان آتا تھا کہ ہمارے پاس تیل کے پیسے نہیں ہیں جس کی وجہ ناقص منصوبہ بندی کے علاوہ کرپشن اور ذاتی ٹرانسپورٹ کی ترقی کے حالات پیدا کرنے تھے۔ اس دور میں کئی ٹرینیں بند کی گئیں اور مال گاڑیوں کو تو بالکل کنارے لگا دیا گیا تاکہ پرائیویٹ سیکٹر کی حوصلہ افزائی ہو ۔ اب ریلوے کا کوئی قصور نہ تھا وہ تو نفع بخش سیکٹر تھا مگر اسے عملاً تباہ کر دیا گیا۔ ریلوے خدا خدا کر کے ریلوے منسٹر سعد رفیق ٹریک پر لے آئے اور اب وہ نفع بخش ادارہ بن چکا ہے۔ مگر پی آئی اے‘ سٹل ملز اس طرح سفید ہاتھی ہیں۔
اسی طرح سوئی گیس کو دیکھ لیں جہاں سیاسی بھرتیاں کرکے اس محکمے کو زیر بار کر دیا گیا۔ سوئی گیس کے حوالہ سے مجھے یاد آیا کہ قومی الیکشن ہو رہا تھا۔ نوابزادہ مرحوم الیکشن میں امیدوار تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے سے پوچھا کہ میں نے 900 ملازمین محترمہ بے نظیر سے اس حلقہ کے لئے منظور کرائے ہیں لیکن مجھے اس کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ بعد میں پتہ کہ چندستھری‘ پاک صاف اور خوشبودار زندگی گزارنے والے عظیم شخص کے بیٹے نے یہ سب کچھ کرپشن کی نظرکر دیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن