سیاسی لڑائیاں اور ملکی معیشت

Mar 19, 2018

سیاسی لڑائیاں قومی معاشی صورتحال پر کس بُر ی طرح اثر انداز ہو رہی ہے ،دو دن پہلے جاری کی گئی آئی ایم ایف کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کی مجموعی قومی پیدا وارمیں کمی جبکہ تجارتی و مالی خسارے میں اضافہ ہوا جس کی بناء پر غیر ملکی ادائیگیاں بھی خطرے میں پڑگئیں ہیں،پاکستان کے زر ِمبادلہ کے زخائر 18.5 سے کم ہو کر 12.8 ارب ڈالرز رہ گئے ہیںجس سے صرف تین ماہ سے بھی کم عرصہ تک کیلئے درآمدات کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی ۔ اِسی طرح مالی خسارہ کُل قومی پیداوار کا 5.4فیصد اور جاریہ خسارہ کل قومی پیداوار کا 4.4فیصد تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیاگیا ہے ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے نیٹ انڑنیشنل ریزروز(این آئی آر)ستمبر 2016میں 7ارب 47کروڑ 67لاکھ ڈالرز تھے جو فروری 2018 کے وسط تک کم ہو کر صرف 72کروڑ 40لاکھ ڈالرز تک رہ گئے ہیں ۔دوسری طرف گوکہ آئی ایم ایف نے مستقبل قریب میں پاکستان کی اقتصادی صورتحال میں بہتری کی توقع ظاہر تو کی ہے مگر ساتھ ہی مالی خسارے کی بڑھتی ہوئی رفتار کے پیش نظر جو5.4ہے سے بہتری کے ان تمام امکانات خطرے میں پڑنے کا عندیہ بھی دیا ہے ۔رپورٹ میں پاکستان میں رواں سال ہونے والے عام انتخابات کے حوالے سے بھی خدشات ظاہر کئے گئے ہیں اورکہا گیا ہے کہ اِ ن انتخابات کی وجہ سے پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف کو قرضوں کی ادائیگی متاثر ہوسکتی ہے کیونکہ الیکشن سے قبل اخراجات میں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے ۔ ملکی معیشت کی اِس زبوں حالی کو آئی ایم ایف کی طرف سے ملک کی خرا ب سیاسی صورتحال سے جوڑنا قرین از انصاف نظر آتا ہے اویہ بالکل درست بھی ہے جس سے ہم بھی سو فیصد اتفاق رکھتے ہیں،کہ کسی بھی ملک کی ترقی چاہیے اقتصادی ہو یا معاشی یہ سب اقتصادی و معاشی استحکام کا نتیجہ ہی ہوتی ہے اوراقتصادی و معاشی استحکام سیاسی استحکام سے ہی جنم لیتا ہے ،یعنی اگر ملک کے سیاسی حالات ٹھیک جارہے ہوں گے تو لازماً ملک دونو ں حوالوں سے ترقی کی جانب گامزن رہتا ہے اور اگر سیاسی حالات ہی درسست نہیں تو ایسے میں ہر طرف سے آئی ایم ایف جیسی رپورٹس کا سامنے آنا ہی بنتا ہے ۔اس سلسلے میں ہم محض گذشتہ چار پانچ برسوں کی بات ہی نہیں کرنا چاہیں گے بلکہ نظر ڈالی جائے پچھلے ستر برسوں کے دورانیے پر تو تب سے ملک ہر دور میں سیاسی عدم استحکام کا شکار ہی نظر آتا چلا آرہا ہے ، پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان مرحوم کے زمانے سے گذرے کل تک سابق وزیراعظم نواز شریف کے دورتک پر صرف اگر طائرانہ نگاہ ہی ڈال دی جائے تو اِس طائرانہ نگاہ میں بھی اِن ادوار میں بمشکل چند ایک برس ہی ایسے گذرے ہوں گے جن میں ملک کو سیاسی استحکام نصیب ہوا ہوگا ورنہ تو پاکستان ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کی دلدل میں ہی پھنستا نظر آتا ہے ۔چلئے رہنے دیتے ہیں پہلے وزیراعظم سے بات شروع نہیں کرتے کہ طویل ہو جائے گی، سابق صدر ایوب خان ہی کے دور پر بات کیجائے تو اِس میں دیکھا جائے تو ملک کے ترقی کی جانب بڑھتے ہی ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سیاسی سرگرمیو ں کا دور شروع ہو جاتا ہے جو بعد میں سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں آگئیں، اسطرح سے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کا دورِ شروع ہو نے کے ساتھ ہی سقوط ِ ڈھاکہ کی شکل میں ایکبار پھر ملک نہ صرف سیاسی عدم استحکام کا شکار ہو جاتا ہے بلکہ دولخت ہونے کے زخم بھی اِسے سہنے پڑجاتے ہیں،اس کے بعد جامع ترقی کا دور چل پڑتا ہے تو ضیاء الحق بمعہ افغان مجاہدین کے ظہور پذیر ہو تے دکھائی دیتے ہیں جس میں سیاسی استحکام تو کجا سرے سے سیاست ہی ختم دکھائی دیتی ہے ، اس کے بعد خدا خدا کر کے ملک جمہوری استحکام کی طرف واپس آنے لگتاہے توکچھ ہی عرصے بعد ایکبار پھر سیاسی عدم استحکام ملک کی اقتصادی و معاشی چُولیں ہلاتے محسوس ہوتا ہے اور بے نظیر حکومت کے جبری خاتمے کی صورت میں میاں نواز شریف سامنے آجاتے ہیں ،اُن کے دور میں بات پھر آگے بڑھتی ہے تو تھوڑے ہی عرصے بعد محترمہ دوبارہ سے سیاسی استحکام کے لئے کوشان دکھائی دیتی ہیں تو دوسری طرف سے پھر نواز شریف اقتدار میں آجاتے ہیں ،مگر یہ سیاسی استحکام بھی عارضی ثابت ہوتا نظر آتا ہے اور پرویز مشرف صاحب دھڑام بیچ میں آکر پھر سے سیاسی استحکام کا مینار زمین بوس کر تے دکھائی دیتے ہیںاورملک کی وہ حالت ہو جاتی ہے کہ اللہ ہی امان دے ،سیاسی استحکام تو دور بلکہ بہت دور کی بات ملک دہشتگردی کی آگ میں ایسا جھونکا گیا کہ ابھی تک جگہ پر نہ آسکا حقیقی معنوں میں ۔ایک بار پھر خدا خدا کر کے جمہوری سیٹ اپ بحال ہوا تو آصف علی زردای قومی سیاست کے افق پر جلوہ گر ہو تے نظر آتے ہیں، ہاں اِن کے دور میںمددتوں بعد پہلی بار ملک کو ایسا سیاسی استحکام نصیب ہوتا دکھائی دیتا ہے جو پانچ سال تک برقرا ر رہا مگر بدقسمتی ملک کی کہ پانچ سال کے بعد ایکبار پھر یہ استحکام اُ س دھرنا سیاست کی نذر ہوگیا جس کا آغاز 2013کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی نواز شریف حکومت کے خاتمے کیلئے کیا گیا تھا۔مگر یہ سابقہ نواز شریف حکومت کی معاشی کامیابیوں کا کمال کہ ڈیڑھ سال کی سیاسی افراتفری کے باجود ملک اقتصادی و معاشی ترقی ملک کو معاشی ترقی کے ایسی منزل پر پہنچ گیا جس کی تعریف خود اِسی آئی ایم ایف نے اپنی ایک رپورٹ میں چند ماہ پہلے کیا جو آج پاکستان کی معاشی ترقی میں سیاسی عدم استحکام کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے رہا ہے ۔
اس تما م صورتحال کو نظر میں رکھتے ہوئے ہماری تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ بس بہت ہو چکا اب کچھ تھوڑا بہت خیال ملکی اور قومی مفادات کا بھی دل میں ہونا چاہیے اور ملک کو ایسا سیاسی استحکام فراہم کر دیا جائے جس سے ملک ا ورسیاست دونوں چلتے رہیں، یہ ملک ہے تو آپ سب بھی ہیں اور آپ کی سیاست بھی ،خدا نخواستہ ملک ہی نہ رہا تو سیاست کہاںجا سکے گی؟ جنت کے تو ہم کسی صورت حقدار قرا ر دیئے جا سکتے ہی نہیں کہ چلو یہ کہہ دیا جائے کہ جنت میں’’ ایسی ‘‘سیاست کر لی جائیگی ،لے دے کے ایک ہی مقام بچتا ہے جس کا نام ہم لینا نہیں چاہتے ،اس لئے کہ ہر کوئی ماشاء اللہ بڑی زیرک و جہاندیدہ ہستیاں ہیں خود ہی اندازہ لگا لینا چاہیے ۔

مزیدخبریں