ن لیگ کیلئے چودھری نثار کی ”پالیسی“

یہ میرا خیال ہے اور یہ غلط بھی ہو سکتا ہے مگر اتنا غلط بھی نہیں۔ لگتا ہے ن لیگ کے بہادر کھرے بے باک اور مخلص لیڈر چودھری نثار ہمیشہ اپنی سیاسی جماعت ن لیگ کے لیے وہ باتیں کرتے رہتے ہیں جو ن لیگ کے لیے سازگار ہوتی ہیں مگر ن لیگ کے کچھ لوگ اسے کسی اور ”مقصد“ کے لیے استعمال کرتے ہیں اور نواز شریف کے بھی کان بھرتے ہیں۔ فکر کی بات اس لیے نہیں کہ شہباز شریف کے ساتھ چودھری نثار کی اچھی انڈرسٹینڈنگ ہے۔
انہی دنوں میں چودھری صاحب نے ایک بڑی سیاسی بصیرت والی بات کی ہے۔ عدلیہ اور فوج سے لڑائی نہیں ہونا چاہیے۔ نواز شریف اور ن لیگ کی بھلائی اسی میں ہے۔ اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرتے ہوئے راستہ نکالنے کا نام سیاست ہے۔ اس جملے کے معانی اور اصولوں پر سمجھوتہ کرنے والے کیا سمجھیں گے۔ ن لیگ کے لیے جو باتیں کی جا رہی ہیں ان میں پوری سچائی نہیں ہے اور آدھی سچائی جھوٹ سے بھی آگے کی چیز ہوتی ہے۔ نواز شریف کی نااہلی کے بعد پارٹی میں فاروڈ بلاک نہیں بن رہا اور نہ کوئی دھڑے بندی ہو رہی ہے۔ ن لیگ کا مستقبل نجانے کیا ہو۔
ایک بات انہوں نے بڑے گہرے دل سے کہی۔ ”میرا متبادل تلاش کرنے والوں کی ضمانت ضبط ہو گی۔“ اس سے تو میں اتفاق کروں گا کہ میں چودھری نثار کو کچھ کچھ جانتا ہوں۔ انہوں نے یہ باتیں نواز شریف کے ساتھ بھی کی ہوں گی۔ اور کئی لوگ تو ن لیگ کا دوسرا دھڑا چودھری نثار کو سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں ایسا ہی ہے مگر کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔ یہ بات تو یقینی ہے کہ چودھری نثار ن لیگ اور شاید نواز شریف کو نہیں چھوڑیں گے۔
ایک جملہ یہ بھی چودھری نثار نے کہاکہ بہت سی چیزوں کی وضاحت کا وقت آ گیا ہے۔ یہ وقت کئی بار چودھری نثار پر آ چکا ہے۔ کبھی چودھری صاحب پیچھے رہ جاتے ہیں کبھی وقت پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ وقت بڑا عجیب ہے۔ ہمیشہ آگے نکل جاتا ہے مگر یہاں؟ چودھری صاحب ایک خاص آدمی ہیں۔ خاص سیاستدان تو ضرور ہیں اور ہمارے ہاں خاص سیاستدان نہیں ہوتے ہیں۔ میں نے تو یہی محسوس کیا ہے کہ سارے سیاستدان ایک جیسے ہوتے ہیں۔ پھر میری ملاقات چودھری نثار سے ہو گئی۔ ان کی یہ بات بھی میرے لیے پریشان کن ہے کہ میں کابینہ میں شامل نہیں ہوں گا۔
نواز شریف کے لیے چودھری نثار ایک سیاسی طعنہ بن گیا ہے۔ اوپر سے ان کی دوستی شہباز شریف سے بھی ہے۔ شہباز شریف کا چودھری نثار کا ساتھ دینا ان کے لیے مفید ہے۔ چودھری نثار کے لیے کیا مفید ہے۔ یہ صرف چودھری نثار جانتے ہیں۔
2018ءکے عام انتخابات کے پہلے حالات کا اس طرح تبدیل ہونا ہر شخص کو حیران کر گیا۔ ابھی پریشان ہونے والی باتیں ہونے والی ہیں۔ ہر شخص سوچ رہا ہے اور الگ الگ سوچ رہا ہے۔ اب لوگوں کو یقین ہے کہ 2018 میں تو الیکشن نہیں ہوں گے۔ پھر کب ہوں گے؟ اس سے پہلے الیکشن ملتوی یا منسوخ ہوئے تو پھر الیکشن کی بات کہیں گم ہو گئی اور چابی بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ جمہوریت کا دروازہ کھلتا ہے مگر کھلا نہیں رہتا۔ لوگ کسی نہ کسی طرح آتے جاتے رہتے ہیں۔
اب پھر چابی گم ہو گئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ چابی چودھری نثار کے پاس ہے۔ تو پھر نجانے نواز شریف اور مریم نواز دھڑا دھڑ اجلاس کیوں کروا رہے ہیں۔
ایک افراتفری کی ابتدا ہے مگر مطمئن ایک ہی شخص ہے اور وہ چودھری نثار ہے۔
٭٭٭٭٭٭
نوائے وقت کے بانی قائداعظم کے پسندیدہ صحافی حمید نظامی کے لیے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں شعبہ ابلاغیات میں حمید نظامی چیئر مجید نظامی کی ہدایت پر قائم کی اور مجھے اس کے لیے انچارج بنایا ابھی تین چار سال ہوئے مگر اب تیسری کتاب ان کے لیے مرتب ہو گئی ہے۔ برادرم حیدر رضا کی معاونت اور کوشش بہت اہم ہے۔ پچھلی دونوں کتابیں صحافت کے ساتھ دلچسپی رکھنے والوں میں بہت مقبول ہوئیں۔
نوائے وقت نکالنے کے لیے حمید نظامی کو قائداعظم نے ہدایت کی تھی۔ مگر زندگی نے ان سے وفا نہ کی۔ ان کے بعد یہ ذمہ داری مجید نظامی کو ملی۔ وہ تقریباً پچاس برس تک نوائے وقت کے ایڈیٹر رہے اور نوائے وقت کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ ایک بار نامور بلوچی سیاستدان اکبر بگٹی نے کہا کہ بلوچستان کے پہاڑوں پر شام تک نوائے وقت کا انتظار کرتا ہوں کیونکہ میرے خیال میں نوائے وقت میں پاکستان بولتا ہے۔
حمید نظامی چیئر کے زیراہتمام تیسری کتاب میں نظامی صاحب کے لیے مختلف پرانے اور نئے شاعروں کا کلام شامل ہے۔
انچارج شعبہ ڈاکٹر نوشینہ نے کتاب کے لیے فلیپ لکھا اور پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر پروفیسر زکریا ذاکر کے نام کتاب کا انتساب کیا گیاہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ تحقیق کے دوسرے موضوعات پر بھی توجہ دیں۔ کتاب میں حفیظ جالندھری‘ آغا شورش کاشمیری، ڈاکٹر فقیر محمد فقیر، حفیظ تائب، سید ضمیر جعفری، جلیل عالی، بشریٰ رحمان، فرحت عباس شاہ، گلزار مجاز آسناتھ کنول، مدثر اقبال بٹ، اقبال راہی، مظہر نیازی اور دوسرے شعراءکا کلام شامل ہے۔

ای پیپر دی نیشن