ماں کہتی تھی’’ پترا کم تے گلیاں دے ککھاں نال وی پے جاندا اے‘‘……دیکھتے ہی دیکھتے جماعت اسلامی کے سینٹ کے دو ووٹوں کی قدر و قیمت آسمان کو چھونے لگی۔ یہی نہیں فاروق ستار کے پاس بچا کھچا ایک ووٹ بھی نہایت قابل احترام قرار پایالیکن بعد از انتخابات برائے ایوان بالا سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا یہ ’’بیانیہ‘‘ بھی بڑا پاپولر قرار پایا کہ : ’’سنجرانی کون ہے؟ ‘‘ پہلے تو بس یہی سوال چل رہا تھا اور بڑی ہر دلعزیزی سے عوام الناس میں اس کا چرچا تھا کہ صادق اور امین کون ہے۔ یعنی میاں جی، زرداری جی اور خان جی میں صادق امین کون ہے۔ اب سابق وزیر اعظم نے ایک نیا سوال اٹھا دیا کہ، سنجرانی کون ہے؟ اگر وہ مجھ جیسے نااہل سے پوچھیں کہ صادق سنجرانی کون ہے تو اتنا تو میں بھی بتا سکتا ہوں سیاست دانوں میں صداقت بتانا بہت آسان مگر اس کاعوام کو یقین دلانا نا ممکن ہے۔کیا کریں، اب تو عوام بھی رعایا ہو چکے کہ جنہیں قوم ہونا چاہئے تھا۔ خیر کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے دوران ہم قوم تھے اور ہمیں پاکستان درکار تھا۔الحمدللہ! پاکستان تو موجود ہے تاہم اسے ایک قوم کی ضرورت ہے۔ قوم کا ملنا تو درکنار اب عوام بھی نہیں ملتے۔ بس رعایا موجود ہے۔ آنکھوں میں امیدوں کا چراغ لئے ایک رعایا ! اپنے اپنے بتوں کو بھگوان سمجھنے والی رعایا، حضرت اقبال جس کیلئے قوم کا تصور رکھتے اور پیدا کرتے رہے۔ ایک ہوں مسلم ، زلف ایاز، غزنوی کی تڑپ، لالہ صحرائی، روح بلالی، تلقین غزالی، پختہ خیالی، شعلہ مقالی کے سنگ سنگ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کرنے کا تصور دے گئے اور قائداعظم نے نہ صرف نظریۂ پاکستان بلکہ ملک بھی لے دیا مگر ہم بھی کیا کمال ہیں آستینوں سے سانپ نکالتے ہیں تو بت رکھ کر توحید کا پرچار شروع کر دیتے ہیں۔ ایسے جیسے عصر حاضر کے قائدین اپنی حکومت کو جمہوریت اور کسی کی جمہوریت کو جمور اور بچہ جمورا کہتے نہیں تھکتے۔ واہ ! جواں مرگ شاعر محمد صدیق ضیاء (راولپنڈی) بھی کیا خوب کہہ گیا ۔ ؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامہ ٔسیاہ میں تھی
اور اپنا یہ عالم ہے کہ بطور رعایا یا محرومیوں کے سبب ریشمی خیالوں یا دن بدلنے کی آس میں گم اپنے اپنے سیاست دان کے مرید ہوئے۔ ؎
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
ہم تو یہ بھی فراموش کرنے کے درپے ہیں کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ مکافات عمل بھی کسی بلا کا نام ہے۔ وغیرہ وغیرہ! بات ہے 1981ء کی، میرے والد صاحب نے مسقط سے خط لکھ کر مجھے پوچھا ’’ یہ میاں نواز شریف کون ہے جو وزیر خزانہ بنا ہے؟ چونکہ اس زمانے میں ، میں بھی کم فہم تھا چنانچہ استاد سے پوچھا کیونکہ باپ کا ڈر تھا، سو میں نے جوابی خط کی خاطر اپنے ایک سکول ٹیچر سے پوچھا ( ان سے میں اخبار بھی خریدا کرتا تھا جو وہ سکول لاتے)۔ استاد محترم نے غصے سے جواب دیا ‘‘مجھے کیا معلوم ہے جنرل جیلانی سے پوچھو ! ’’بیشک میں بچہ تھا اور اس زمانے میں استاد کا احترام بھی مرشد سا ہوتا تھا ، گویا چپ ہی کر گیا کہ، اب کیا پوچھوں کہ جنرل جیلانی کہاں ملے گا کیونکہ بچے غیر سیاسی ہوتے تھے۔ لیکن اتنا بھی بچہ نہیں تھا کہ ’’بچگانہ سوال ‘‘ پوچھتا کہ جنرل جیلانی کون ہے کیونکہ اتنی تو سمجھ تھی جنرل ضیاء الحق کی دھوم ہے جن کے نام کے ساتھ جرنیل آتا ہے لہذا اسی قبیلے کا ہوگا۔ ویسے بھی پیارے پاکستان میں کسی کے بننے بنانے کا سوال کیسا کوئی کچھ بھی بن سکتا ہے، بس بنانے والا چاہئے۔ ہم تو خیر بچے تھے اور ہیں مگر میاں صاحب تو جانتے ہیں ’’سب ‘‘ذرا ذرا ! وقت جب بولتا ہے تو سننا پڑ جاتا ہے لہذا زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ لیکن صرف اپنی طرف کی نہیں دوسری طرف کی زبان بھی۔ اگر کوئی ایک لاکھ ووٹ لیتا ہے تو مخالف کے نوے ہزار ووٹرز کی زبان کے لئے بھی کان کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبان بندی کی نہیں۔ بعد از سینٹ انتخابات ایک عجیب و غریب ہنگامہ برپا ہے کہ نیازی اور زرداری کیوں ایک ہوئے؟ میاں صاحب بھی کبھی تحریک استقلال میں تھے اور اصغر خان ان کا لیڈر تھا۔ یہ وہ ائیر مارشل اصغرخاں تھے جنہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو کوہالہ پل پر پھانسی دینے کی بات کی اور پھر ایسا بھی وقت آیا کہ انہوں نے میاں نواز شریف کے خلاف لاہور میں پی پی اور بی بی کے اتحاد سے الیکشن لڑا۔ ہر وقت کی اپنی بولی اور اپنا منظر ہوتا ہے۔ زرداری کے اچھے ہونے کے لئے میرے پاس زیادہ ثبوت نہیں لیکن اس کی اچھائی کے گن گاتے میں نے ن لیگ کے قائد کو ضرور دیکھا ہے، اس دن زرداری اچھا تھا جس دن ایک طرف دھرنا تھا اور دوسری جانب رائے ونڈ میں زرداری کے لئے سرخ قالین سواگت تھا۔ میثاق جمہوریت سے پہلے میاں برادران کے لئے بی بی سکیورٹی رسک تھی پھروہی بہن بھی لگی۔ ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے بھٹو کی پھانسی پر مٹھائیاں بانٹیں مگر آج انہیںشہید کہتے ہیں۔ ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی ٔداماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
ستم تو یہ ہے کہ، تحریک انصاف والے اس قدر شرمیلے ہیں کہ جیسے سینٹ کے الیکشن میں میلہ نہیں لوٹا بلکہ شرمندگی والا کوئی کام کیا ہے۔ ارے سیاست، ریاست کے لئے کرو اور خم ٹھونک کر کرو۔ ریاست نظر انداز تو سیاست دغاباز، اگر ریاست مد نظر تو سیاست قابل قدر۔ ڈر کس بات کا ؟ سیاست کے حمام میں کیا ہے کیا نہیں سب جانتے ہیں۔ آج کا دوست کل کا دشمن اور کل کا دشمن آج کا دوست بھی ہو سکتا ہے اگر سیاست کی ڈگر ریاست ہے۔ اگر نہیں تو سب فراڈ۔ دیکھ لیجئے میاں شہباز شریف پرسوں ڈیرہ غازی خان سابق صدر فاروق لغاری اور اس کے بیٹوں کو وہ خراج تحسین پیش کر رہے تھے کہ رہے نام اللہ کا۔ ایک وقت تھا کہ حدیبیہ شوگر مل اور مہران بینک سکینڈل مقابلوں میں بڑے میاں صاحب اسی جگہ پر لغاری خاندان کے خلاف احتجاج کرنے گئے۔ شہباز شریف پرسوں وہاں کھڑے ہوکر عمران خان کو جھوٹا اور عمران خان نے لاہور خواتین کنونشن میں یہی کچھ شہباز شریف کو کہا۔ سبحان اللہ مولانا فضل الرحمن نے بھی پرسوں سینٹ انتخابات کو غیر جمہوری قرار دے ڈالا۔ مولانا آپ سب سچے ہیں۔ شاید ہم رعایا ہی نادان ہیں کہ آپ کی اداؤں کو نہیں سمجھ پاتے اور ہر دفعہ جھانسے میں آجاتے ہیں۔ لو ، جماعت اسلامی کا ’’بیانیہ‘‘ بھی سن لیں کہتے ہیں ہم پاناما میں سب کے خلاف گئے تھے صرف میاں صاحب کے نہیں ، یہ تاثر دے رہے ہیں کہ وہ نومولود اینٹی سٹیبلشمنٹ ہوکر میاں صاحب کی جانب دو سینیٹر ووٹ لے کر گئے۔ پرسوں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار اور وزیر داخلہ احسن اقبال کی نوک جھونک بھی میڈیا کی زینت بنی ۔ وقت ہی بتائے گا کہ کون کتنا جمہوری اور جنٹلمین ہے ؟ جرم نشان ضرور چھوڑتا ہے۔ جمہوریت میں کچھ بابو اور کچھ بابے بڑے حضرت ہیں کہ ہر پارٹی میں کئی بھولے بھالے چہرے مگر دل بے ایمان ہیں۔ کاش رعایا یہ سمجھ کر عوام اور پھر قوم بنے۔ کوئی جتنا برا ہے اسے اتنا برا کہا اور سمجھا جائے اور جو جتنا اچھا ہے اسے اتنا اچھا سمجھا جائے۔ ہر کوئی اپنے لیڈر ہی کو مقدس گائے نہ سمجھے ورنہ اپنا مقدر رعایا ہی رہے گا، نہ کوئی رعایت ممکن ہے۔ جانے نیوٹریشن پرابلم ، مسئلہ ٹریفک ، تعلیم، ہائر ایجوکیشن کونسلز، یونیورسٹیوں اور ان میں وائس چانسلرز کی تقرریوں کیلئے بوگس سرچ کمیٹیوں کی کلا کاری میں بیوروکریسی اور حکمرانوں کی مداخلت، صحت عامہ کو نظر انداز کرنا کیوں یاد نہیں؟ ووٹ کو ضرور عزت دلائو لیکن ’’ غریب ووٹر ‘‘ کو انتہائی ناقص پاکستان فارمیسی کونسل اور نااہل ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی سے بھی نجات دلا نے کی بات کرو۔ ہیلتھ کارڈ کی کیا ضرورت ہے؟ شناختی کارڈ کافی ہے۔ تعلیم ، صحت اور فراہمی انصاف سب کا حق نہیں؟ ہاں، زرداری و نیازی کوئی جوڑی شوڑی نہیں بننے جا رہی، ذرا صبر۔ زرداری کی ’’ ضرورت ‘‘ ابھی آپ کے لئے بھی باقی ہے۔ سینٹ انتخابات سے اتنے بھی مایوس کیوں، زرداری پکچر ابھی باقی ہے دوست! ’’کم تے گلیاں دے ککھاں نال وی پے جاندا اے ! ‘‘ بس ایہناں ککھاں نوں وی عزت دیو، ہم ’’رعایا‘‘ کو عزت دو !