ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کا بل پنجاب اسمبلی کے معزز اراکین نے منظور کر لیا ہے مگر یہ بل متنازعہ شکل اختیار کر گیا ہے اور وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ ملک کی مالی حالت مخدوش ہے اس لیے تنخواہوں میں اتنے زیادہ اضافے کا کوئی جواز نہیں اس پر ایک لمبی چوڑی بحث چل نکلی ہے اور جن وفاقی وزراء نے پہلے اسکے حق میں بیان دیا تھا وہ اب ’’یوٹرن‘‘ لے رہے ہیں۔ ’’یوٹرن‘‘ لینا بھی پی ٹی آئی کے ’’اندر کھاتے منشور‘‘ کا حصہ ہے اور وزیراعظم عمران خان نہ صرف اس حوالے سے معروف ہیں بلکہ اس کا دفاع بھی کر چکے ہیں۔ ہم نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ مراعات میں اضافے کا بل وہ واحد بل ہوتا ہے جس کی کم از کم مخالفت ہوتی ہے اور زیادہ تر ارکانِ اسمبلی اسکی حمایت ہی کرتے ہیں اور اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
صورت حال بڑی دلچسپ ہے کہ گورنر پنجاب جن کے دستخطوں سے یہ بل فائنل منظوری حاصل کرے گا انھوں نے اس پر دستخط نہ کرنے کا سوچنا شروع کر دیا ہے اور عثمان بزدار نے بھی غالباً یہ بل اسمبلی سے واپس کرانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ یہ ساری صورت حال اس حوالے سے دلچسپ ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کی بطور سیاسی پارٹی ساکھ متاثر ہو گی کہ ایسے فیصلے کیے ہی کیوں جاتے ہیں جن کو بعد میں واپس لیا جائے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں وزیراعظم کے خیالات سے اراکین اسمبلی کیوں واقف نہیں ہیں اور بعد میں اس کیلئے جو کشکول اٹھائے دوست ممالک کے آئے دن دورے پر نکل کھڑے ہوتا ہے ہزیمت کا سامان پیدا کیا جاتا ہے۔
پارٹی کے منشور کی خلاف ورزی پر ان اراکین پنجاب اسمبلی پر بھی حرف آتا ہے جنہوں نے اس بل کے حق میں ووٹ دیا اور اب اگر بل کی واپسی کا بل آتا ہے تو اس کے حق میں بھی انہیں ووٹ دینا پڑیگا مگر یہ طے ہے کہ آج نہیں تو کل یہ بل اسمبلی سے منظور ہوگا اور اراکین پنجاب اسمبلی متفقہ طور پر پھر اسکے حق میں ووٹ دینگے۔ یہ اور بات کہ اس پر یوٹرن لینے والے اس وقت اراکین کی صفوں میں ہونگے یا نہیں؟ ایسا ڈنکے کی چوٹ پر ہوگا اور اس کیلئے باقاعدہ زمین ہموار کی جائیگی۔ اراکین اسمبلی کو ’’غریب غربائ‘‘ کی صف میں شمار کیا جائے گااو ر سب سے بڑی دلیل یہ ہو گی کہ اگر تنخواہیں معقول ہو گئیں تو کوئی اراکین اسمبلی ’’کرپشن‘‘ کا مرتکب نہیں ہوگا۔پاک بھارت کشیدگی کا اختتام ہو گیا ہے۔ وجہ یہ کہ بھارت میں الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو گیا ہے اور اس تاریخ کے علان کے بعد کسی بھی پارٹی کو ’’جنگ‘‘ جیسے بڑے فیصلے کا اختیار نہیں رہا۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کئی نقطہ نظر پیش کیے جا رہے ہیں جن میں ایک نقطۂ نظر یہ بھی ہے کہ یہ سب کچھ دونوں حکومتوں کی باہمی ملی بھگت کا نتیجہ تھا اور اسکے فوائد دونوں حکومتوں نے سمیٹے ہیں۔ عمران خان کا عالمی امیج بہتر ہوا ہے اور بھارت میں مودی پارٹی کی پوزیشن بہتر ہوئی ہے۔ خیر اسکی تصدیق تو الیکشن کے نتائج ہی کر سکیں گے کہ یہ نقطۂ نظر کس حد تک ٹھیک ہے۔اگر ایسا ہوا تو اگلا پی ایس ایل پاکستان میں ہونے کے واضح امکانات ہیں کیونکہ اتنے عرصے میں بھارت بھی اپنے اندرونی مسائل پر قابو پا ہی لے گا۔اب ٹویٹ کا زمانہ ہے لیڈر ایک دوسرے سے ٹویٹ پر مخاطب ہوتے ہیں اور بیانات جاری کرتے ہیں۔ اسکی طرح تو امریکی صدر ٹرمپ نے ڈالی تھی۔ اب چھوٹے ملکوں کے بڑے لیڈر بھی ٹویٹ پر ایک دوسرے سے خطاب کرتے ہیں بلکہ بعض خطابات تو قومی حیثیت حاصل کر جاتے ہیں جس طرح پنجاب اسمبلی کے اراکین کی تنخواہوں کے بل پر عمران خان نے مایوسی کا اظہار کیا تو بذریعہ ٹویٹ ہی کیا۔ اس طرح پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ بھی بذریعہ ٹویٹ اپنے خیالات سے ’’عوام الناس‘‘ کو آگاہ کرتی ہے۔ بلاول کے ٹویٹ بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ تازہ ترین ٹویٹ بختاور بھٹو کا ہے جس نے وزیراعظم عمران خان پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ وہ اسمبلی میں نہیں آتے اور ہیلی کاپٹر پر سوار ہو کر دورے کرتے رہتے ہیں۔ اسکے جواب میں کوئی ایک آدھ ٹویٹ متوقع ہے جو ’’منی لانڈرنگ کیس‘‘ کے حوالے سے ہوگا۔ جس کا پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کو اس وقت شدت سے سامنا ہے اور اس کیس کی سماعت بھی سندھ سے اسلام آباد منتقل ہو چکی ہے۔بلاول بھٹو اپنے والد کی جان چھڑانے کیلئے بار بار تحریک کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے اٹھارویں ترمیم واپس لیے جانے کیخلاف تحریک چلانے کی دھمکی دی ہے اور وہ بھی جیل بھرو تحریک!! جس کے جواب میں فواد چوہدری نے کہا ہے کہ سندھ میں ایسی تحریک چلائے جانے کی ضرورت نہیں کہ سندھ کی جیلیں ویسے ہی ’’منی لانڈرنگ کیس‘‘ میں ملوث لوگوں سے بھر جائیں گی!!