بندہ پرور!! دماغ کی بند کھڑکیاں کھولیے…

Mar 19, 2019

ڈاکٹر عارفہ صبح خان

نیوزی لینڈ کرائسٹ چرچ سانحہ ایک بین الاقوامی نوعیت کا حادثہ ہے جس نے پچاس مسلمانوں کی شہادت سے دنیا کو بتا دیا ہے کہ انتہا پسندی کسی بھی مذہب میں ہو سکتی ہے اور مذہب کا انتہا پسندی سے تعلق نہیں ہوتا۔ انتہا پسندی کچھ لوگوں کی فطرت میں حلول کر جاتی ہے جس سے وہ لوگوں کی جان لیتے ہیں۔ انتہا پسندی سے لیکن مذہب کو ضرور نشانہ بنایا جاتا ہے۔ تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے مذہب کی آڑ لیکر انتہا پسندی اور تشدد سے انسانیت کی دھجیاں اڑائیں۔ بھارت جو خود کوسیکولر قرار دیتا ہے وہاں بڑی تعداد میں انتہا پسند موجود ہیں۔ ان میں سے ایک نریندر مودی ہے۔ اگر صرف پانچ سو سال پہلے کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں تو بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان کے کروڑوں لوگوں کی نسلیں ایک دوسرے سے جا ملتی ہیں۔ نسلوں کی کھوج لگائی جائے اور خون کے منبع تلاش کیے جائیں تو خاص طور پر مسلم ہندو آپس میں کزنز نکلیں گے لیکن مذہب کے نام پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں۔ مسلمانوں میں بُغض اور عناد نہیں ہے نہ ہی اتنا تعصب ہے لیکن ہندوئوں کے بعض گروہوں میں نفرت، عداوت، بُغض ، عناد، تعصب اور انتہا پسندی شدت سے موجود ہے۔ بھارت میں رہنے والے کروڑوں ہندو بہت اچھے اور امن پسند بھی ہیں۔ اُن میں رواداری اور محبت بھی ہے لیکن اقتدار کی ہوس میں انکے بعض لیڈر اپنے ہی جوانوں اور فوجیوں کو جنگوں میں جھونک دیتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، کسی بھی حکمران کا بیٹا فوج میں نہیں رہا۔ فوج میں ہمیشہ محب وطن لوگ جاتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر کی تعداد غریبوں اور متوسط طبقے کی ہوتی ہے۔ کسی حکمران اور سیاستدان کا بیٹا بھائی فوجی نہیں ہوتا فوجیوں کی زندگی محنت ، جفاکشی، ڈسپلن اور موت سے لڑتے گزرتی ہے جبکہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو عیاشی نہیں چھوڑتی۔ خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہو یا نواز شریف، شہباز شریف، آصف زرداری ہو یا یوسف گیلانی، فضل الرحمان ہو یا محمود اچکزئی ، فاروق ستار ہو یا مصطفی کمال ، اسفند یار ولی ہو یا سراج الحق… شاہ محمود قریشی ہو یا چودھری شجاعت حسین، عارف علوی ہوں یا عمران خان…کیا کسی ایک کا بھی بیٹا فوج میں گیا ہے۔ کیا کبھی کسی کے بیٹے نے مادرِ وطن کیلئے شہادت دی ہے؟ کیا کسی ایک کا بھی بیٹا وطن عزیز کیلئے قربانی سے گزرا ہے۔ یہی حال بھارت میں ہے کہ حکمران عیاشی کرتے ہیں اور غریبوں کے بچے فوج میں جا کر جانیں دیتے ہیں۔ کلبھوشن یادیو ہو یا ابھی نندن …یہ سب حکمرانوں کا چارہ بنتے ہیں۔ جو لوگ جنگوں کی باتیں اتنی آسانی سے منہ بھر کر کرتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ جنگ کی ہولناکیاں کیا ہوتی ہیں۔ اگر ان لوگوں نے جنگِ عظیم اول دوئم کا حال پڑھا ہوتا اور جنگوں کی تباہ کاریوں سے واقف ہوتے تو کبھی جنگ کی بات زبان پرنہ لاتے۔ جنگ وہ مہلک زہر ہے جو ختم ہونے کے بعد بھی نسلوںمیں زہر بنکر اتر جاتا ہے۔ صلیبی جنگیں آج بھی دنیا کے ذہنوں پرنقش ہیں۔ جنگِ آزادی کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ جنگیں صرف جغرافیائی تغیرات نہیں لاتیں‘یہ زندگی، زمین اور ذہنوںکامتغیرہ بدل کر رکھ دیتی ہیں۔ ہیروشیما، ناگاساکی کے اثرات تیسری چوتھی نسلوں تک کو مجروح کر چکے ہیں۔ نریندر مودی جیسا سطحی آدمی جسکی زندگی چائے بیچتے گزری ہے۔اُس عقل کے اندھے کو کیا پتہ کہ توپ کیسے چلائی جاتی ہے اور میزائل کیسے داغا جاتا ہے۔ کلاشنکوف کیسے پکڑتے ہیں اور بم کیسے گرائے جاتے ہیں۔ نریندر مودی کی کنپٹی کے پاس ایک ریوالور سے گولی چلا دی جائے تو وہ زندگی بھر سو نہیں سکے گا اور باتیں کرتا ہے ایٹم بم گرانے کی۔ گزشتہ 72 سالوں سے یہی ڈرامہ چل رہا ہے کہ الیکشن قریب آتے ہیں تو ملک میں دو تین ماہ کیلئے سراسمیگی پھیلا دی جاتی ہے۔ الیکشن جیتنے کیلئے واویلا کیا جاتا ہے کہ سر پر جنگ مسلط ہے۔ بھارتیوں کو چاہئے کہ جب بھی اُن کا کوئی ڈرپوک لیڈر اقتدار حاصل کرنے کیلئے جنگ کا پروپیگنڈا کرے تو عوام اُسے جنگی محاذ پر بھیج دیں کہ جنگ جیت کر آئو پھر اقتدار کا جُھولا جھولو۔ کیا یہ انتہا پسندی اور انسانیت کی توہین نہیں کہ بھارت میں کچھ جاہل، انتہا پسند ہندوئوں نے نیوزی لینڈ سانحہ پر جشن منائے اور کہا کہ یہ پلوامہ کا انتقام ہے یا پلوامہ حملے کا نتیجہ ہے۔ حیرت ہوتی ہے انکی عقل پر۔ پاکستان میں ہر سال تین ہزار سے زائد پاکستانی صرف بم دھماکوں ، تخریب کاریوں اور را کے اہداف میں ناحق مارے جاتے ہیں۔ کیا کبھی کسی نے پوچھا ہے کہ یہ معصوم نہتے بے قصور مسلمان کس نے مارے اور کیوں مارے؟؟ انسانیت کا پرچار کرنیوالے بھارت، امریکہ، فرانس، آسٹریلیا، بلجیم پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ اب جب نیوزی لینڈ میں مسلمانوں پر اتنا بڑا سانحہ رونما ہوا تو اقوام متحدہ کی انسانیت ، امریکہ کے ہیومن رائٹس کا اوویلا، فرانس کی مساوات پسندی، آسٹریلیا کی رواداری اور بھارت کا بندے ماترم کہاں گیا؟؟؟ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی مسلمانوں سے زیادتی ہو رہی ہے۔ کشمیری مسلمان ہوں، شامی ہوں، روھنگیا، ہوں، فلسطینی ہوں، عراقی ہوں، یمنی ہوں یا پاکستانی…مسلمانوں کو دوران عبادت مساجد میں شہید کیا جا رہا ہے۔ کیاکبھی گرجا گھروں، مندروں، گوردواروں، عبادت گاہوں میں غیر مسلموں کو بے رحمی سے مارا جا رہا ہے۔ یہ بات غور طلب ہے۔ انسانیت تو یہ ہے کہ اپنے دماغ کی بند کھڑکیاں کھولیں اور دل کی آواز پر کان دھریں۔

مزیدخبریں