’’وسیم اکرم پلس‘‘ کی قربانی؟

اتوار کی رات سونے سے قبل حسب عادت سوشل میڈیا تھوڑی دیر کو دیکھا۔ خوش گوار حیرت ہوئی کہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے زمانے میں بے تحاشہ لوگ جو عموماََ ٹویٹر کے ذریعے ایک دوسرے کی جان کے درپے نظر آتے ہیں یکسو ہوکر PSLکے فائنل سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ میچ کے ایک ایک مرحلے کو چٹکلہ نما تبصروں کے ذریعے پر رونق بنارہے تھے۔دعویٰ ہے کہ اس میچ کو تقریباََ آٹھ کروڑ لوگوں نے ٹی وی سکرینوں یا سمارٹ فونز کی بدولت دیکھا ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو ناظرین کی تعداد کے اعتبار سے ایک ریکارڈ توڑ تعداد ہے۔ یہ تعداد PSLکے آئندہ سیزن کے لئے ایڈورٹائزنگ ہی نہیں کاروبار کے کئی اور شعبوں کے لئے امکانات کے بے پناہ دربھی کھول سکتی ہے۔ امیدوں بھرا دل گہری نیند لانے کا باعث ہوا۔اتوار کی رات نصیب ہوا اطمینان قلب میری راحت کا سبب اس لئے بھی ہوا کہ اس سے ایک رات قبل لاہور میں تین دن گزارکے لوٹا تھا۔ملاقاتیں اس شہر میں فقط اپنے شعبے کے چند لوگوں تک محدود رہیں۔ میرے وہاں جانے سے قبل ہی مگر پنجاب اسمبلی کے منظور شدہ اس بل کا قضیہ شروع ہوچکا تھا جس کے ذریعے اس ہائوس کے تمام اراکین نے پارٹی وفاداریوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں یکجا ہوکر تین سے چار گنااضافہ کیا۔
وزیر اعظم کو اس بل کی منظوری پسند نہ آئی۔ ایک ٹویٹ کے ذریعے انہوں نے اپنے غصے کا اظہارکیا۔ نظر بظاہر گورنر پنجاب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ اس بل میں تصحیح کو یقینی بنائیں۔ ’’تصحیح‘‘ کا عمل مگر آسان نہیں۔معاملہ پیچیدہ ہے۔ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین کی ایک مؤثر تعداد خود کو بہت مکاری سے اس عمل سے دور رکھتے ہوئے ’’اصلاح‘‘ کو ناممکن بناسکتی ہے۔ شاید ان کا رویہ صوبائی حکومت کو مجبور کردے کہ وہ تصحیح بل کو ووٹنگ کے لئے تیار کرکے اسمبلی کے سامنے ہی نہ لائے۔ دریں اثناء لاہور ہائی کورٹ میں اس بل کے خلاف ایک پٹیشن بھی دائر ہوگئی ہے۔ یہ کالم لکھنے تک مجھے خبر نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔ فرض کیا کارروائی ہوئی اور بل کو عدالتی عمل سے غیر مناسب ٹھہرادیا گیا تو مزید سبکی ہوگی۔ مزید لکھنے سے قبل یہ اعتراف کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اراکینِ اسمبلی کو مناسب تنخواہ درکار ہے۔اسمبلی کا رکن منتخب ہونے کے بعد معقول تنخواہ کی یقین دہانی کے ساتھ وہ اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر بھرپور توجہ دے پائیں گے۔ ہر سیاسی پیش قدمی کو لیکن مناسب ماحول بھی درکار ہوتا ہے۔ گزشتہ دوماہ سے خلقِ خدا مسلسل اپنے بجلی اور گیس کے بلوں میں ہوشربااضافے سے بلبلارہی ہے۔ کاروبار میں مندی کا رحجان مستقل صورت اختیار کرتا نظر آرہا ہے۔ ایسے ماحول میں اپنی تنخواہ اور مراعات کے لئے یکسوہوئے اراکین پنجاب اسمبلی یقینا خلقِ خدا کو ’’خودغرض‘‘و’’حریص‘‘ نظر آئے ہوں گے۔ سیاست اور سیاست دانوں سے شدید نفرت یا کم از کم لاتعلقی کا ایک اور جواز نمایاں ہوکر ہمارے سامنے آگیا۔ مذکورہ بل کو پاس کرنے کے بعد اس سے جان چھڑانا بھی لیکن آسان نہیں۔ اس میں تصیح نہ ہوپائی تو پیغام جائے گا کہ عمران خان صاحب کا لکھا ٹویٹ بھی ان کی اپنی جماعت کی حکومت کواصلاح کی جانب راغب نہ کرپایا۔ یہ اصلاح نہ ہوپائی تو کم از کم سزاکے لئے ’’وسیم اکرم پلس‘‘ کی قربانی دینا ہوگی۔ممکنہ قربانی کے امکانات نے لاہور کے صحافیوںکو ’’متبادل‘‘ کی تلاش میں لگارکھا تھا۔’’متبادل‘‘ کی تلاش کے بارے میں ہوئی گفتگو سے میں قطعاََ لاتعلق رہا۔ کئی برسوں سے اسلام آباد تک محدود ہوچکا ہوں۔صوبائی سیاست کے اہم کرداروں سے شناسائی نہیں۔ان کی خواہشات وترجیحات کا مجھے ہرگز اندازہ نہیں۔ محض اسلام آباد تک محدود ہوتے ہوئے قومی معاملات کومگر بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی عادت ہوچکی ہے۔’’متبادل‘‘ کی تلاش میں جت جانے کے بجائے میرے ذہن پر وہ دبائو حاوی رہا جو FATFکے ذریعے ہماری ریاست پر بڑھایا جارہا ہے۔ دریں اثناء پلوامہ واقعہ کے بعد ہمارے خطے میں Near-Warکا جو ماحول بنا اس کی بدولت چند تنظیموں پہ ریاستی لگام ڈالنے کی شدت بھی ضرورت سے محسوس ہوئی۔ جن تنظیموں پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے لگام ڈالنا مقصود ہے ان کے مراکز اور حمایتوں کی Baseاٹک سے رحیم یار خان تک پھیلے آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے -پنجاب- میں ہے۔ اس حقیقت کو نگاہ میں رکھیں تو پنجاب کو اس وقت ایک Hands Onوزیر اعلیٰ کی شدید ضرورت ہے۔ انتظامی معاملات پر مکمل گرفت کے ساتھ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو سیاسی اعتبار سے متحرک رہنے کی بھی بہت ضرورت ہے۔ مجھ ایسے لوگ اسے پسند کریں یا نہیں حقیقت مگر یہ ہے کہ جن تنظیموں کی وجہ سے ان دنوں ہم عالمی دبائوکا سامنا کررہے ہیں وہ ایک طاقت ور بیانیے کی بدولت ابھریں ۔ یہ بیانیہ روایتی سیاست کو’’مغرب‘‘ کی مسلط کردہ شے تصور کرتا ہے۔ دعویٰ ہے کہ یہ سیاست ہمارے ’’دینی پیغام‘‘ کی نفی ہے۔محض اقتدار کی طلب گار ہے۔حرص اس کا بنیادی وصف ہے۔ روایتی سیاست کو شدت سے رد کرتے ہوئے مذکورہ تنظیموں میں سے چند ایک نے ’’فلاحی‘‘ کاموں کا ایک وسیع تر نیٹ ورک بھی بنارکھا ہے۔ حادثات اور قدرتی آفات کے دوران وہ ہنگامی صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لئے بنائے کئی ریاستی اداروں سے بہت پہلے مشکلات میں گھرے لوگوں کی رضا کارانہ مدد کے عمل میں نمایاں نظر آتے رہے ہیں۔ ہنگامی صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے بنائے ریاستی اداروں کے لئے ضروری ہے کہ خود کو ان ’’رضا کاروں‘‘ کا ٹھوس متبادل ثابت کریں۔وگرنہ لوگوں کی ایک مؤثر تعداد یہ سوچنے کو مجبور ہوگی کہ محض امریکہ یادیگر مغربی ممالک کے ’’حکم‘‘ اور ان کی ’’تسلی اور تشفی‘‘ کے لئے ‘‘ دینی جذبے سے سرشار ہوکر خدمت خلق پر مامور ہوئے ’’رضا کاروں‘‘ کا جینا دوبھر بناڈالا گیا۔ اسلام آباد سے لاہور جاتے ہوئے مجھے گماں تھا کہ اپنے آبائی شہر کے ہم پیشہ دوستوں کے ساتھ گفتگو کے دوران مذکورہ تنظیموں سے متعلق میرے ذہن میں امڈتے سوالات پر توجہ کا موقعہ نصیب ہوگا۔ ’’متبادل‘‘ یقینا زیر بحث رہا مگر اس کا ذکر ایسے تناظر میں ہوا جو میرے لئے فی الوقت فروعی تھا۔

ای پیپر دی نیشن