قومی اسمبلی اور سینٹ میں صوبہ ہزارہ کا بل جمع

راجہ محمد منیر خان
rajamunirkhan@yahoo.com
کرونا وائرس کے خوف کی وجہ سے دنیا بھر میں معمولات زندگی بری طرح متاثر ہونا شروع ہوگئی ہے ۔کرونا وائرس سے متاثرہ ممالک میں اب پاکستان بھی شامل ہوگیا ہے۔ سندھ کے بعد پنجاب بلوچستان اور کے پی کے کی حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس اور عدالتوں کو 15 دن کے لئے بند کر دیئے ہیں اورمیٹرک کے امتحانات بھی غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کردیئے گئے ہیں۔ اسی طرح ہر قسم کی تقریبات پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے تاکہ اس موزی مرض کی اڑان کو روکا جا سکے ۔صوبہ کے پی کے چند ایک اضلاع کے بغیر اکثریتی اضلاع میں گرمی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جن میں اکثریت سیاحتی مقامات پر مشتمل ہیں۔ ہر سال ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک سے سیاحوں کی بڑی تعداد ان سیاحتی مقامات کا رخ کرتی ہے جس سے جہاں مقامی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آتے ہیں وہاں حکومت کو بھی سیاحت کی مد میں ٹیکس کی صورت میں بڑا ریونیو ملتا ہے۔ اگر یہ وائرس پھیل جاتا ہے تو اس پر قابو پانا ناممکن ہو جائے گا صوبہ کے پی کے ہسپتالوں کی حالت پر اگر نظر ڈالی جائے تووہ عوام کو عام علاج کی سہولت میسر نہیں کر سکتے ہیں ۔ اس موزی مرض پر کنٹرول کیسے کر سکیں گے صوبے میں ایم ٹی آئی ایکٹ کی صورت میں پہلے ہی عام آدمی کے لئے علاج خواب بن چکا ہے سرکاری ہسپتالوں میں عوام کو مفت علاج کی جو سہولت میسر تھی وہ بھی عوام سے چھین لی گئی ہے اور اپنوں کو نوازنے کے لئے ہسپتالوں اور میڈیکل کالجز کی بڑی سیٹوں پر بھاری تنخواہوں پر تعیناتیاں کر دی گئی ہیں جس سے ہسپتال کا وہ بجٹ جس سے عوام کو ریلیف ملتا تھا اور ہسپتالوں میں موجود مشینری کی مرمت پر خرچ ہوتا تھا اب وہ ان اعلی سیٹوں پر تعینات افسران کی تنخواہ میں چلا جاتا ہے ۔ایم ٹی آئی ایکٹ سے قبل ڈائریکٹر ہسپتال اپنی اسی تنخواہ پر اپنے فرائض سرانجام دیتا تھا جو گورنمنٹ کے قانون کے مطابق ہوتی تھی وہ اس لئے خوش ہوتا تھا کہ اس کے سکیل کے ڈاکٹرز اس کے ماتحت اور اسے جوابدہ ہوتے تھے اب ان سیٹوں پر تعینات افسران کو تین سے چار لاکھ تنخواہ دی جا رہی ہے جس سے ہسپتال کے بجٹ کا زیادہ حصہ ان افسران کی تنخواہوں کی مد خرچ ہو جاتاہے۔ ایوب میڈیکل کمپلیکس کی ایم آر آئی مشین پچھلے طویل عرصے سے خراب ہے جو جدید ترین مشین ہے۔ہسپتال میں لگی مشینری خراب کر کے باہر چلنے والی مشینوں سے اپنا کمیش وصول کر رہے ہیں۔ صوبہ کے پی کے میں جتنے بھی بڑے ہسپتال ہیں ان کا یہی حال ہے ایسے حالات میں اگر کرونا وائرس کے پی کے میں پھیل جاتا ہے تو اس پر کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائے گا۔
پاکستان میں نئے صوبے بنیں گے پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن 2018 میں جنوبی پنجاب صوبے کے نام پر جنوبی اضلاع سے بڑا سیاسی گروپ اپنے ساتھ ملایا تھا اور انتخابی مہم کے دوران وزیراعظم عمران خان نے ہزارہ ڈویژن کے دورہ کے موقع پر صوبہ ہزارہ بنانے کا بھی اعلان کیا تھا اس اعلان کو غنیمت جانتے ہوئے جب قومی اسمبلی میں صوبوں کے متعلق بات چلی تو ہزارہ کے منتخب نمائندوں اس کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اس سے صوبہ ہزارہ کی آواز بھی موثر انداز میں اٹھائی۔ مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی مرتضی جاوید عباسی نے صوبہ ہزارہ کا بل اپنے دیگر ممبران کی مدد سے پیش کیا اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی علی خان جدون نے اپنے ممبران کے تعاون سے قومی اسمبلی میں صوبہ ہزارہ کا بل پیش کر دیا جبکہ جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر طلحہ محمود نے سینٹ میں صوبہ ہزارہ کا بل جمع کروا دیا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی اسمبلی اور سینٹ میں ان بلوں پر بحث ہوتی ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن بظاہر ایسا نظر آرہا ہے اور وزیراعظم کے اعلٰی سطح اجلاس میں بہاولپور کو جنوبی پنجاب کا سیکرٹیریٹ بنانے کے فیصلہ سے ثابت ہو رہا ہے کہ صوبہ ہزارہ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کے بعد ہزارہ ڈویژن کے ممبران قومی و صوبائی اسمبلی صوبہ ہزارہ کی آواز کو بلند رکھنے کے لئے پارلیمان کی سطح پر اور عوامی دباو بڑھانے کیلئے ہزارہ بھر میں احتجاجی پروگرام ترتیب دے دیئے تھے تاکہ دونوں اطراف سے دباو بڑھایا جاسکے اس سلسلے میں اسلام آباد ہری پور ایبٹ آباد میں پروگرام بھی ہوئے ۔ کرونا وائرس کی بڑھتی ہوئی اڑان کے پیش نظر کے پی کے حکومت نے صوبہ بھر میں ہر قسم کے پروگرام پر 15 دن کے لئے پابندی عائد کر دی ہے ان وجوہات کی بناپراسمبلی میں اور نہ ہی عوامی سطح پر احتجاج ہو سکے گا ۔
خیبر پختونخوا سینئر سٹیزن ایکٹ 2014 پر عملدرآمد کے حوالے سے خیبر پختونخواہ کے پارلیمنٹیرینز اور اعلی افسران کا ایک اعلیٰ سطح اجلاس یو این ڈی پی کے تعاون سے منعقد کیا گیا۔ اجلاس میں سینئر سٹیزن ایکٹ 2014 پر عملدرآمد نہ ہونے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ قانون، محکمہ سماجی بہبود اور دیگر اداروں کے اعلی افسران نے پارلیمنٹیرینز کو ایکٹ پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجوہات سے آگاہ کیا۔
اجلاس کی صدارت ڈپٹی سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی محمود جان نے کی جبکہ دیگر شرکاء میں وزیراعلی کے معاون خصوصی تاج محمد اور عارف احمدزئی، چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے صحت خیبر پختونخوا ڈاکٹر سمیرا شمس، یو این ڈی پی کے چیف ٹیکنیکل ایڈوائزر ڈیرن نینس، خیبرپختونخوا یو این ڈی پی کے کوآرڈینیٹر بلال خٹک کے علاوہ دیگر پارلیمنٹرین اور اعلی افسران نے شریک تھے اجلاس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے بھی خصوصی شرکت کی۔ڈپٹی سپیکر محمود جان نے کہا کہ صوبے کے بزرگ شہریوں کے مسائل کو دیکھتے ہوئے سینئر سیٹیزن شپ ایکٹ 2014ء میں کچھ ترامیم تجویز کی گئی ہیں تاکہ صوبے کے بزرگ شہریوں کے فلاح بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔ شق کے تحت معاشرے کے بزرگ شہریوں کو بیشتر سہولیات مہیا ہوںگی جس میں لائبریری، پارک، میوزیم وغیرہ کے لئے داخلہ مفت ہوگا مالی تعاون جیسی سہولیات بھی حاصل ہوگی۔ چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے صحت سمیرا شمس نے کہا کہ ہمارا دین اسلام بھی بزرگ شہریوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر سمیرا شمس نے یہ بھی کہا کہ ہسپتالوں میں بزرگ شہریوں کے لئے الگ کاونٹرز اور بیڈز کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام تر سہولیات کو بروئے کار لایا جائے گا۔ اور تمام بزرگ شہریوں کو علاج میں خصوصی رعایت دی جائے گی۔
وزیراعلی کے معاون خصوصی برائے معدنیات عارف احمد زئی نے کہا کہ بہت جلد اس قانون پر سختی سے عملدرآمد کروایا جائے گا اور کسی قسم کی بھی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹیرین محکموں کے اعلٰی افسران اور یو این ڈی پی نمائندے کسی ناکسی اہم ایشو پر اجلاس تو کرتے ہیں جو اجلاس ٹی اے ڈی اے بنانے اور اس مد میں آئی ہوئی امداد کھانے کا ایک طریقہ ہے جبکہ اس طرح کے منعقدہ اجلاس سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا پاکستان کے آئین میں کتنے اچھے قوانین موجود ہیں ان پر کتنا عمل ہے ۔آئین کے محافظ اور اس پر عمل درآمد کرانے والے آئین توڑتے ہیں انہیں آج تک سزا نہیں ملی ۔آئین توڑنے کی سزا موجود ہونے کے باوجود تو یو این ڈی پی کس طرح اس پر عملدرآمد کرائے ۔ اس طرح کے اجلاسوں سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے سوا کچھ نہیں ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے لوگ پسماندہ ممالک کے لوگوں کی زندگیاں بہتر بنانے کیلئے فنڈز دیتے ہیں۔ اور ان این جی اوز کے کرتا دھرتا اپنی عیاشیوں اور خانہ پوری کے لئے اجلاسوں پر ضائع کر کے سب اچھے کی رپورٹ دی کر وہ پیسے ہڑپ کر لیتے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن