کچھ عرصہ پہلے حکومت پنجاب کی مدد سے چلنے والے ایک اشاعتی ادارے کی کتابوں کی فہرست دیکھ رہاتھا، فہرست کے آخر میں ان کتابوں کے نام لکھے ہوئے تھے جو فنڈز کی قلت کی وجہ سے دوبارہ نہ چھپ سکیں اور شاید چھپ بھی نہ سکیں۔ اس لئے کہ حکومتوں کی دلچسپی کا محور علم و ادب اور کتاب کی بجائے سنگ و خشت کے منصوبے ہیں لیکن ختم ہوگئی کتابوں کے جو نام دیئے گئے تھے، انہیں پڑھ کر دل ’’سی پارا‘‘ ہوگیا۔ سی پارا کا استعارہ علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم سے لیا گیا ہے جس کے ایک شعر کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ’’اپنے آبائواجداد کی کتابوں کو جو مشرق کے کتب خانوں میں ہونا چاہئیں تھیں یورپ کے کتب خانوںمیں دیکھ کر دل ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔‘‘ ختم ہوچکی کتابیں اپنے موضوع کے لحاظ سے دولت کے انباروں پر بھی بھاری ہیں۔ افسوس اس لئے بھی ہوا کہ صوبائی یا وفاقی حکومتوں کے نزدیک یہ کتابیں غیرضروری ہیں ورنہ چند لاکھ کی گرانٹ کوئی معنی نہیں رکھتی۔
ملک میں حکومتی کنٹرول میں کتابوں کی اشاعت کے کئی ادارے ہیں، انہوں نے ترجمے کرا کر یا اوریجنل کتابیں شائع کی تھیں جو علمی لحاظ سے بڑی بلند پایہ ہیں لیکن فنڈز کی قلت کے باعث بار دیگر نہ چھپ سکیں۔ مقتدرہ، نیشنل بک فائونڈیشن، اردو سائنس بورڈ، مجلس ترقی ادب پنجاب اور ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور نے بڑی وسیع علمی کتابیں شائع کیں خصوصاً ادارہ ثقافت اسلامیہ کے زیراہتمام چھپنے والی کتابوں کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا لیکن اب بیشتر کتابیں آئوٹ آف پرنٹ ہیں۔ علمی سطح پر یہ خسارہ قومی بجٹ میں خسارے سے کہیں وزنی ہے اگرچہ کہا جاتا ہے کہ کتاب سے دلچسپی اور مطالعہ کا شوق کم ہوا ہے، یہ درست ہے کہ کمپیوٹر اور موبائل فون نے نوجوانوں کی دلچسپی کا رخ موڑ دیا ہے لیکن پھر بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو کتاب سے لگائو رکھتے ہیں اور بے تحاشا مہنگی کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں۔ کچھ ایسے صاحب ذوق لوگوں کو جانتا ہوں جنہوں نے گھروںمیں ذاتی لائبریریاں بنا رکھی ہیں۔آج کل ناشرین نے عجیب وطیرہ اختیار کر رکھا ہے، ادھر ادھر سے پرانی کتاب تلاش کرکے دوبارہ چھاپ دیتے ہیں۔ اس کا ایک مثبت پہلو یہ ہے کہ قاری کو بھولی بسری کتاب مل جاتی ہے اور ناشر کا یوں بھلا ہو جاتا ہے کہ اسے رائلٹی نہیں دینی پڑتی۔ اردو کو شاعری کی رو سے نکال کر نثر کی راہ پر ڈالنے کا سہرا 215سال قبل کے فورٹ ولیم کالج کے سر پر ہے جس نے پرانے سنسکرت اور فارسی کے کلاسیکل ادب کو اردو نثر میں منتقل کیا۔ مثلاً الف لیلہ ولیلہ داستان امیر حمزہ اور قصہ چہار درویش وغیرہ وغیرہ۔
تقسیم سے قبل ریاست حیدرآباد دکن نے اردو کی غیرمعمولی خدمت کی۔ اردو کی پہلی اور آخری یونیورسٹی جامعہ عثمانیہ کے دارالترجمہ نے بہت شاندار کتابیں، ترجمہ و تصنیف کرا کر شائع کیں اور بہت کم قیمت پر اردو قارئین تک پہنچایا۔ ان کتابوں نے اردو کو برصغیر کی قدیم مگر ترقی یافتہ زبانوں مثلاً سنسکرت، بنگالی، تامل اورتلگو کی صف میں لاکھڑا کیا۔ خلدآشیانی نظام حیدرآباد دکن پر عثمان علی خان کی ذاتی دلچسپی کے باعث دارالترجمہ کی کتابوں کا برصغیر کی کوئی بھی دوسری زبان مقابلہ نہ کرسکی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جامعہ عثمانیہ نے جس کا ذریعہ تعلیم اردو تھا، کئی نامور سائنسدان بھی پیدا کئے جنہیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ غیرمنقسم ہندوستان کی لائبریریوں میں خدابخش اورینٹل لائبریری پٹنہ کو غیرمعمولی شہرت حاصل ہوئی۔ اس کی کتابوں کی تعداد کئی لاکھ ہے۔ نادر اور نایاب قلمی نسخے اور مخطوطے بھی بھاری تعداد میں موجود تھے۔ یہ امر قابل اطمینان ہے کہ آزادی کے بعد بھی بھارتی حکومت نے اس لائبریری کو فنڈز سمیت ہر قسم کا تعاون اور سرپرستی فراہم کی۔ بھارت کے آئین میں قومی زبانوں کی فہرست میں اردو سب سے آخر میں 14ویں نمبر پر ہے لیکن اس کے باوجود کئی بھارتی ریاستوں میں سرکاری سرپرستی میں اردو کتب کے اشاعتی ادارے چل رہے ہیں۔ ان اداروںمیں عموماً وہ کتابیں شائع ہوتی ہیں جو انگریزی سے ترجمہ ہوتی ہیں یا دوسری علاقائی زبانوں وغیرہ میںشائع ہوتی ہیں۔ ان اداروں کے زیراہتمام شائع ہونے والی کتابوں کی خاص بات یہ ہے کہ ان کی قیمت انتہائی کم ہوتی ہے۔ تقسیم سے قبل انجمن ترقی اردو ہند اور دارالمصنفین اعظم گڑھ کے زیراہتمام بڑی قیمتی اور نادر کتابیں چھپیں۔ تقسیم کے بعد یہ دونوں ادارے مالی سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے زوال کاشکار ہوئے۔
اس وقت نئی دہلی میں عالمی شہرت یافتہ 95سالہ اسلامی سکالر مولانا وحیدالدین کی سرپرستی میں اسلامی مرکز سائنس اور اسلام کے موضوع پر مغربی معیار کی تحقیقی کتب شائع کر رہا ہے۔ مولانا وحیدالدین خان اپنے اسلوب کے آپ موجد ہیں۔ عمر بھر سیاست سے دور رہے بلکہ ان کی کوشش یہی رہی ہے کہ مسلمان سیاست میں پڑنے کی بجائے تعلیم اور خصوصاً سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کریں اور ہندوئوں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ اردو، انگریزی، عربی اور ہندی پر کامل عبور رکھتے ہیں۔ عالمی سیمیناروں میں انگریزی اور عربی میں پوری قدرت سے اظہار خیال کرسکتے ہیں۔ وضع قطع کے لحاظ سے پرانے زمانے کے مسلمان صوفی نظر آتے ہیں۔ ان کے مرکز کے زیراہتمام اردو میں الرسالہ اور انگریزی میں سپرٹ آف اسلام کے نام سے دو ماہنامے شائع ہوتے ہیں۔ فرقہ واریت اور اقتدار کے مراکز سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ انہیں بھارتی حکومت نے اعلیٰ شہری ایوارڈ پدم بھوشن سے نواز رکھا ہے۔ اس کے علاوہ انہیںراجیہ سبھا کی رکنیت اور دلی کی گورنری کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے اپنے مشن کی خاطر انہیں قبول کرنے سے معذرت کرلی۔ ترجمعہ وتفسیر قرآن مجید کے علاوہ تقریباً 20 کتابوں کے مصنف ہیں۔ انہیں کئی عالمی اداروں کی طرف سے اعزاز پانے اور رکن ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان کا غالباً اہم ترین کارنامہ ہندوئوں کے آشرموں کے مقابلے میں سنٹر فار پیس کا قیام ہے۔ اس سنٹر سے حق اور روحانیت کے متلاشی ہندو، سکھ اور عیسائی بھی بڑی تعداد میں وابستہ ہیں۔ ان کی کتب کوئی بھی ناشر بلااجازت چھاپ سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ان کی کتب پاکستانی ناشروں کے ہاں بھی نظر آتی ہیں۔
مولانا وحیدالدین خان کا تعارف اورتذکرہ قدرے طویل ہوگیا، ان گزارشات سے مقصود یہ ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے تحت چلنے والے اشاعتی اداروں کو فنڈز کی قلت کا شکار نہ ہونے دیں۔ سائنس اور ٹیکنالوجی پر غیرملکی زبانوں میں لکھی گئی اچھی اچھی کتابوں کے ترجمے کرا کر عوام میں نفع نہ نقصان کی بنیاد پر تقسیم کرے۔ ملک و قوم کو شاعری اور قصے کہانیوں اور سیاست سے زیادہ ذہن ساز کتابوں کی ضرورت ہے۔