حیاتیاتی ہتھیاروں کی جنگ

Mar 19, 2020

سینیٹر رحمان ملک

حیاتیاتی ہتھیاروں کی جنگ جہاں یہ روز بروز مہلک ہوتی جا رہی ہے۔ یہ کیمیائی ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ تباہ کن اور بے آواز ہے کیونکہ حیاتیاتی زہریلے یا متعدی (ایجنٹس) بیکٹیریا، وائرس کیڑے ، مکوڑوں اور فنگس کا استعمال انسانوں، جانوروں کو مارنے یا پودوں تباہ کرنے ’’اپاہج و معذور‘‘ اور ناکارہ بنانے کا ہی جنگی ہتھیار ہے۔ یہ وائرس مہلک بھی ہو سکتا ہے اور غیر مہلک بھی۔ تاہم اسے کسی ایک فرد، گروہ یا پوری آبادی کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جو معاشرے کو مفلوج کر کے رکھ دیتا ہے۔ اسے کوئی ملک اس کو کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال کرتا ہے تو یہ بھی ’’بائو ٹیررزم‘‘ (حیاتیاتی دہشت گردی) ہے۔ ’’حیاتیاتی ہتھیار‘‘ بلاشبہ بے رحمی سے کام کرتا ہے۔ آج ہمیں کرونا نامی جس وائرس کا سامنا ہے جو کئی وائرسز کا مجموعہ ہے جو معمولی سردی سے لے کر نزلہ ، زکام کی شدت اور سانس لینے کی شواریوں کا سبب بنتا ہے۔ اس وقت پوری دنیا کو کرونا وائرس کا سامنا ہے جو بہت خطرناک ثابت ہو رہا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اس وائرس کے سامنے بے بس نظر آ رہی ہیں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ وائرس آیا کہاں سے ہے؟ اس وقت اس سے محفوظ خطہ کون سا ہے۔ سب سے پہلے چین اس وائرس کا شکار ہوا یا اٹلی اور ایران پر وائرس حملہ آور ہوا۔ ایک طالب علم کی حیثیت سے تحقیقات کا پہلا مرحلہ کرونا وائرس کی ابتدا کے بارے میں جاننا ہے۔ اس حوالے سے چین اور امریکہ میں الزام تراشی بھی شروع ہو چکی ہے۔ فریقین مضبوط دلائل اور نکات رکھتے ہیں۔ تحقیقات نہ ہوئیں تو الزام ختم نہیں ہو گا۔ دنیا حقائق جاننا چاہتی ہے لہٰذا میری تجویز ہے کہ اقوام متحدہ اعلیٰ سطح تحقیقاتی کمیشن بنائے جو غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنائے کہ کرونا وائرس (کو ویڈ19 ) کی اصل کیا ہے۔ اس کا پہلا شکار کون اور کہاں ہوا انسانی جسم میں داخل ہونے سے فوری کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کیونکہ کچھ عرصہ قبل برڈ فلو وائرس کا سراغ لگایا گیا تھا اور ’’اینٹی ڈاٹ‘‘ ملا تھا اور اس حوالے سے جو کچھ ریاستوں کی سابقہ تحقیقات دستیاب ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ وائرس بھی فلو کی ہی ایک قسم ہے۔ کرونا ایک نیا وائرس ہے جس کی تشخیص انسانوں میں پہلے نہیں پائی گئی حالانکہ متعدد کرونا وائرس جانوروں میں پائے جاتے ہیں جو مضبوط مدافتی نظام کے باعث یہ انسانوں پر اثرانداز نہیں ہوتے تاہم ویٹرنری ماہرین اس حوالے سے کافی تحقیقاتی معاونت کر سکتے ہیں۔آئیے اس مہلک وائرس سے تیار ہونے والے حیاتیاتی ہتھیاروں کا جائزہ لیتے ہیں کہ حیاتیاتی ’’جنگی ایجنٹوں‘‘ کو اسلحہ کے طور پر کس طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ جنگوں میں استعمال ہونے والے حیاتیاتی ہتھیاروں ، مہلک و زہریلے ، متعدی و مستحکم ہونے اور موجودہ ویکسنوں سے علاج کرنے کی صلاحیت میں بہت فرق ہے حالانکہ حیاتیاتی ہتھیاروں کو حتمی شکل دینے سے پہلے دوائیں اور اینٹی ڈاٹ تیار کی جانی چاہئیں۔ حیاتیاتی ایجنٹوں کی پانچ اقسام ہیں جن کو جنگوں میں مہلک ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بیکٹیریا کے ایک خلیے کے حیاتیات انتھراکس ، بروسیلس ، تالا ریمیا اور طاعون جیسی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ریکٹی سیسی مائیکرو جنزم جو بیکٹیریا سے ملتے جلتے ہیں۔ فصلوں کی بیماریوں کے خلاف استعمال ہونے والی فنگی پیتھوجنز کو بھی حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سانپوں، کیڑے مکوڑوں ، سمندری حیاتیات، کوکیوں اور دیگر حشرات الارض کے زہر کو بھی حیاتیاتی ہتھیاروں کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹاکسن کی ایک مثال ’’ریکن ہے جو ارنڈ کے بیج سے نکلتی ہے۔ کرونا وائرس بھی ٹاکسن کے بالکل قریب نظر آتا ہے لہٰذا عین ممکن ہے کہ اس وائرس کی تخلیق میں گھنائونا کردار ادا کیا ہو اگر ہم کیمیکل ہتھیاروں اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے مابین فرق کی جانچ پڑتال کریں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حیاتیاتی ہتھیار سب سے خطرناک ہیں۔
بین الاقوامی معاہدوں کے مطابق کیمیائی ہتھیاروں کی تعریف’’ جلانے سمیت فوری ہلاکت کا سبب بننے والے‘‘ ہتھیاروں کے طور پر کی گئی ہے۔ (ترجمہ : ڈاکٹر شاہ نواز تارڑ)

مزیدخبریں