اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی نظرثانی کیس کی سماعت براہ راست نشرکرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ملک قلم سے بنتے ہیں۔ حکومت میرے کیس میں ملزم ہے ملزموں سے کہتا ہوں مجھے میرے سامنے ملزم بنائیں۔ کابینہ میں کوئی سیاست نہیں ڈسکس ہو سکتی۔ وفاقی وزرا سیاسی بیانات دیتے ہیں۔ پراپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ جونیئر جج کبھی سینئر جج کے خلاف فیصلہ نہیں دیں گے۔ اس معاملے میں یہ کہا گیا کہ عدالت معاملہ فل کورٹ میٹنگ میں بھجوا دے۔ لیکن اگر چیف جسٹس فل کورٹ میٹنگ ہی نہ بلائیں تو کیا ہو گا؟۔ دو ججز میرا کیس سننے سے معذرت کر چکے ہیں۔ تین ججز سپریم جوڈیشل کونسل کے ممبر ہیں۔ عمران خان اور وزیر قانون نے براہ راست نشریات کیلئے دائر درخواست کی مخالفت نہیں کی۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے حکومت، صدر اور اٹارنی جنرل کی طرف سے مخالفت کی لیکن میں نے کبھی نہیں کہا کہ تمام مقدمات میں براہ راست کوریج ہو۔ صرف اپنے کیس کی براہ راست کوریج کی استدعا کی ہے۔ دکھانا چاہتا ہوں عدالت سب کو عوامی سطح پر قابل احتساب بناتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے سوا سب ججز میرے جونیئر ہیں۔ تمام پانچ ججز میرے حوالے سے فل کورٹ میٹنگ میں شرکت نہیں کریں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ نے کیسے تعین کر لیا ججز شرکت نہیں کریں گے؟۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے موقف اپنایا کہ حکومت نے کہا لوگ جاہل ہیں عدالتی کارروائی نہیں سمجھ سکیں گے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایسے الفاظ حکومت نے استعمال نہیں کئے۔ آپ کا بولا ہوا ہر لفظ میڈیا میں رپورٹ ہوتا ہے۔ کل آپ نے گٹر کا لفظ استعمال کیا وہ بھی میڈیا میں آیا۔ اس لئے الفاظ کے چنائو میں احتیاط کریں۔ آپ جج ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قائد اعظم بھی اردو نہیں بول سکتے تھے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے قوم کی توہین کی۔ قرارداد پاکستان بھی انگریزی میں تھی لیکن لوگوں نے سمجھی اور قبول کی۔ قرارداد پاکستان پر لوگوں نے ملک بنایا جو ڈکٹیٹروں نے دو لخت کردیا۔ کوئی عربی نہیں سمجھتا لیکن پھر بھی مسلمان بن گیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ہر شخص اپنے بچے کو انگلش سکول میں بھیجتا ہے۔ لسانی کارڈ کے استعمال نے ملک کو تباہ کیا۔ حکومتی وکیل قانونی گفتگو کریں ڈرامے بازی نہ کریں۔ جسٹس منظور ملک نے جاہل کا کوئی متبادل لفظ بنایا تھا۔ اس دوران جسٹس منظور ملک نے کہا کہ میں نے تو کوئی بات ہی نہیں کی ۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بلوچستان نے پاکستان بنا کر دکھایا۔ اگر ججز فیصلوں سے بولتے ہیں تو میڈیا کو عدالت سے باہر نکال دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ انہوں نے سانحہ کوئٹہ کی رپورٹ دی تھی جو ردی کی ٹوکری میں پھینک دی گئی۔ پاکستان میں دہشتگردی کو فروغ دیا جارہا ہے۔ ارشد ملک کی قابل اعتراض حالت میں ویڈیو کس نے بنائی؟۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے ایک آئینی ادارے پر حملہ کیا۔ کل عدالت کو بھی کہا جائے گا کہ استعفی دے۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پر عمل نہیں کرنا تھا تو چیف جسٹس کا وقت ضائع کیوں کیا؟۔ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا اردو ترجمہ کیوں نہیں کرایا جاتا؟۔ جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ حمود الرحمان رپورٹ کا اردو ترجمہ آچکا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھاکہ انٹرنیٹ پر اردو ترجمہ بھارت میں کسی نے کر کے اپ لوڈ کیا۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھاکہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل حکومت کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ دوسرے فریق کے وکیل کی تذلیل نہیں کرنی چاہئے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے قانونی نقاط پر دلائل دیئے تھے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ عام شہریوں کو آئین اور قانون کا بھی علم نہیں ہوتا حکومت میرے کیس میں ملزم ہے۔ ملزمان سے کہتا ہوں مجھے میرے سامنے ملزم بنائیں۔ میرے متعلق کہا جاتا ہے میں عدالت میں سخت ہوتا ہوں۔