دسمبر 1957ء میں ملک فیروز خان نون پاکستان کے وزیرِ اعظم بنائے گئے۔ جب وہ پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے تھے تو پھر وہ پنجابی نہیں پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔ ان کی بیگم وقار النساء نون غیر ملکی تھیں، انہوں نے پاکستان کی اتنی خدمت کی کہ پاکستانی خواتین سے بھی بہت بڑھ گئیں۔ گوادر بندر گاہ آج جس پر پوری دنیا کی نظریں ہیں، سر فیروز خان نون اور ان سے پہلے کے زمانوں میں بلوچستان کی گوادر بندر گاہ واقع تو پاکستان میں تھی لیکن وہ سلطان مسقط کی ملکیت تھی۔ چنانچہ آزادی کے بعد اس بندر گاہ کو واپس لینے کا سوال پیدا ہوا۔ تب یہ کوئی بندرگاہ نہیں بس ایک ساحل تھا جہاں قدیم مچھیرے مچھلیوں کا شکار کرتے اور گزر بسر کرتے تھے۔ چنانچہ طویل گفت و شنید کے بعد اس کی قیمت ادا کر کے پاکستان نے یہ بندر گاہ خرید لی۔ یہ کام ایک پنجابی وزیرِ اعظم کا تھا، پاکستانی تھا اور بلوچستان اس کے اپنے ملک کا حصہ تھا جس کی زمین کا کچھ حصہ کسی بھی وجہ سے کسی دوسرے ملک کے پاس تھا اور اس کی واپسی ضروری تھی۔ بلوچستان کے عوام کو شاید معلوم بھی نہ ہو کہ کسی پنجابی نے اپنی حکومت میں ان کے صوبے کو مکمل کیا تھا بلکہ ان کے صوبے کی ایک نہایت ہی قیمتی جائیداد واپس لی تھی جو کسی دبئی سے زیادہ قیمتی اور اہم ہے۔
مجھے گوادر کی واپسی کا واقعہ اس لئے یادآیا کہ جب سے پی ڈی ایم بنی ہے اس کے پلیٹ فارم سے بہت سے لیڈر بہت سی باتیں کر جاتے ہے، علیحدگی کے رجحانات کو ہوا بھی دی جاتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ قوم پرست وفاق سے الگ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے اعتراض کرتے ہیں کہ وفاق سامراجی قوتوں کے زیرِ اثر ہے مگر خود سامراج کے ساتھ مل کر قوم پرست نہ صرف وفاق بلکہ صوبے میں بد نظمی اور انتشار کا باعث بن رہے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ وہاں کے عوام کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے لوگ مارے جا رہے ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کو کون مار رہا ہے؟ جب کہ قوم پرست بھی ایسے لوگوں کو مار رہے ہیں جنہیں وہ سمجھتے ہیں کہ وفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں ان عوامل کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو واقعی ہی صوبے اور وفاق میں خلیج کو زیادہ وسیع کر دینا چاہتے ہیں۔ کلبھوشن کے پکڑے جانے کے بعد سے اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ بیرونی طاقتیں مختلف طبقے کے لوگوں کو نشانہ بناکر مزید نفرت پھیلائی جا رہی ہے کیونکہ بیرونی طاقتوں کے راستے کی رکاوٹ سکیورٹی فورسز اور وفاق ہے۔ وہی سامراجی طاقتیں خطرہ ہیں جن کی نظریں بلوچستان کے قدرتی ذخائر اور وسائل پر لگی ہوئی ہیں اور بھارت جو پاکستان کا ازلی دشمن ہے اسے استعمال بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ در اصل یہ مسائل معیشت کی کوکھ سے جنم لے رہے ہیں ۔ بلوچستان کے مسئلے میں کئی عناصر ہیں جن کے تحت بلوچستان میں حالات کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے تحت ایسے حالات کو پیدا کیا جا رہا ہے۔ مگر اصل مسئلہ معیشت ہی ہے کیونکہ نیشنل ازم کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ان تحریکوں کے بنیادی محرکات میں سب سے کلیدی عنصر معیشت ہی ہوتا ہے۔ کسی کو بھی عوامی بھلائی سے کوئی سروکار نہیں ہے، نہ ہی قوم کا سوال ان کے لئے کوئی اہمیت کا حامل ہے۔ قوم کے سوال کے خیال کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ علیحدگی پسندی کے جو عناصر ہیں ان کی مذمت اس لئے کرنی چاہئے کہ یہ مصنوعی طور پر پیدا ایسے حالات پیدا کر رہے ہیںجن کے تحت وہاں کے عوام خصوصاً نوجوان نسل کے اندر وفاق کے حوالے سے نفرت کے جذبات ابھارے جا رہے ہیں۔ حقوق کی جنگ اور علیحدگی میں فرق ہوتا ہے جب تک اس فرق کو سمجھا نہ جائے حقوق کی جنگ ابہام کا شکار رہتی ہے۔ بیرونی اشاروں پر بعض عناصر قوم پرستی کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کے تحت اپوزیشن کے پلیٹ فارم سے کئی سیاست دان بہت سی باتیں کر جاتے ہیں اسی قسم کا بیان گزشتہ روز جاوید لطیف نے بھی دیا تھا۔ وہ سمجھ نہیں رہے کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے۔ یہ مسئلہ بہت پیچیدہ ہے جس کو قوم کے سوال کے تحت حل کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اور قوم پرستی کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔