گزشتہ سے پیوستہ
انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیقات کے مطابق امریکی فوج کا ایک جنرل جو اب ریٹائرڈ ہوچکا ہے اس سودے کا ذمہ دار تھا اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اس کمپنی کیلئے کام کرنے لگا جس نے یہ طیارے فروخت کیے تھے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ طیاروں کا یہ سودا جس امریکی کمپنی سے کیا گیا اس بارے میں امریکی ایئر فورس کی طرف سے خبردار کیا گیا تھا لیکن ان تمام چیزوں کو نظر انداز کرکے ٹھیکہ اسی کمپنی کو دے دیا گیا تاہم امریکی حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ کرپشن میں ملوث امریکی جنرل کے خلاف کاروائی نہیں کی جائے گی۔ اس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جی 222ایئر کرافٹ گروپ میں جو ناکامی ہوئی اس پر فوجداری یا سول مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔ افغانستان کیلئے امریکی امداد لوٹے جانے کا یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ رپورٹ میںاعتراف کیا گیا ہے کہ درجنوں تعمیراتی منصوبے جن میں اسکول ، ہسپتال ، اور بجلی پیدا کرنے والے کارخانے شامل ہیں۔ سرکاری سطح پر غفلت استعمال نہ کیے جانے ، غیر معیاری تعمیرات کی وجہ سے یا تو تباہ ہوچکے ہیں یا زبوں حالی کا شکار ہیں ۔ انسپکٹر جنر ل فار افغان ری کنسٹرکشن کی فروری کے آخری ہفتے میں جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ منصوبے افغانستان کے صوبوں بغلام ،بلخ ،فرح ،غزنی ، ہراس ، جو زغان ، کابل ، قندھار، خوشت ، قندوز ، لنگرہار ، نمروز ،پک ٹیااور فروان میں بنائے گئے تھے ۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ منصوبے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس یو ایس ایڈ اور اوورسیز ، پرائیویٹ ، انوسمنٹ کے تحت مکمل کیے جانے سے ان منصوبوں میں بعض ایسے منصوبے بھی شامل ہیں جن کو مکمل تو کرلیا گیا لیکن وہ کبھی استعمال میں نہیں ہوئے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگے یا ان کو اس مقصد کیلئے استعمال نہیں کیا گیاجن کے لیے و بنائے گئے تھے۔ کچھ منصبوبے اس وجہ سے ناکام ہوگئے کیونکہ انہیں مقامی لوگوں کی ثقافتی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی ضروریا ت کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔ امریکی ادارے کی رپورٹ اور اس کے اجراء کا وقت خاصی دلچسپی کا حامل ہے ہم نے اپنے کالموں میں پہلے بھی کئی بات یہ بار کہی ہے کہ افغانستان میں جنگ جاری رکھنا دراصل امریکہ کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس سے وابسطہ لوگوں کی خواہش ہے جو لوگوں کی جانوں سے کھیل کر خوب رقم کما چکے ہیں ۔ حالیہ امریکی رپورٹ سے اس بات کی تائید ہوتی ہے امریکہ ادارہ اس کرپشن کا انکشاف ایک ایسے موقع پر کر رہا ہے جب بائیڈن انتظامیہ افغانستان سے انخلاء کا فیصلہ کرچکی ہے ۔ اگر اسی بائیڈن انتظامیہ نے جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہوتا تو یہ کرپشن دبادی جاتی ۔ اگر افغانستان کی طویل جنگ حقیقت میں خون آشام ، امریکی جنرلوں اور ان کی پشت پر موجود سرمایہ کاروں کا کھیل تھا جو اب ختم ہونے کے قریب ہے ۔ بدلتا ہوا وقت امریکی اداروں کو خود ہی یہ اعتراف کرنے پر مجبور کررہا ہے ۔