سینٹ انتخابات اپنے منطقی انجام کو پہنچ گئے، وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو قومی اسمبلی کی طرح سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہوگئی، چیرمین سینٹ اور ڈپٹی چیرمین بھی اپنے بندے منتخب ہوچکے۔اپوزیشن کوNRO بھی نہیں مل سکا۔مگر وزیراعظم سے یہ سوال پوچھنا ضرور بن رہا ہے کہ اپوزیشن کو NRO بالکل نہ دیں مگر مہنگائی کو NRO کون اور کیوں دے رہا ہے؟ ایک طرف حکومتی وزیر شبلی فرازیہ کہ رہے ہیں کہ عمران خان نے مہنگائی کے خلاف جہاد کردیا ہے تو دوسری طرف مملکت پاکستان میں پنجے گاڑتی ہوئی مہنگائی نے عوام الناس کا جینا دوبھر کردیا ہے۔حال ہی میںادارہ شماریات نے مہنگائی پر ہفتہ وار اعداد و شمار جاری کئے ہیں۔ایک ہفتے کے دوران انڈے 16 روپے 38 پیسے فی درجن مہنگے ہوئے، چینی کی اوسط فی کلو قیمت میں ایک روپے 68 پیسے اضافہ ہوا، تازہ دودھ دہی، گھی سمیت 26 اشیاء ضروریہ مہنگی ہوئی،7 اشیاء کی قیمتوں میں کمی اور 18 میں استحکام رہا، ہفتہ وار مہنگائی کی شرح 13.48 فیصد رہی۔ملک کے 10 بڑے شہروں میں چینی کی قیمت 100 روپے فی کلو یا اس سے زائد ہوگئی ہے۔ادارہ شماریات کے مطابق کراچی میں چینی سب سے مہنگی قیمت 110 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، ملک میں چینی کی اوسط فی کلو قیمت 98 روپے50 پیسے پر پہنچ گئی ہے۔ملک کے 6 شہروں میں فی کلو چینی 100 روپے تک پہنچ گئی، اسلام آباد اور راولپنڈی میں چینی 105 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، کوئٹہ بہاولپور، سیالکوٹ، ملتان اور پشاور میں چینی کی فی کلو قیمت 100 روپے ہے۔ادارہ شماریات ہی کیمطابق حیدرآباد میں فی کلو چینی کی قیمت 98 روپے سے 100 روپے تک ہے، فیصل آباد میں چینی کی فی کلو قیمت 98 روپے تک پہنچ گئی۔ایک ہفتے کے دوران آلو کی فی کلو قیمت 89 پیسے بڑھ گئی، تازہ دودھ ایک روپے 45 پیسے، دہی ایک روپے 37 پیسے فی کلو اور آٹے کا 20 کلو کا تھیلا 9 روپے 76 پیسے مہنگا ہوا۔ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق دال ماش کی فی کلو قیمت میں 2 روپے جبکہ دال چنا 74 پیسے فی کلو مہنگی ہوئی۔آئے روز یوٹیلٹی اسٹورز پر اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں بیش بہا اضافہ کیا جارہا ہے۔اک خبر کے مطابق حکومت پاکستان نے 50 ہزار میٹرک ٹن چینی اور 3 لاکھ ٹن گندم کی درآمد کے لیے دوبارہ انٹرنیشنل ٹینڈرز جاری کردیے،اک زرعی ملک کی کیسی بدقسمتی ہے کہ اسکو اپنی بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء گندم اور چینی بیرون دنیا سے درآمدکروانی پڑ رہی ہے۔اس بات کا اعتراف خود عمران خان صاحب نے 15 مارچ زیتون کی شجر کاری مہم کے حوالہ سے اک تقریب میں کیا، وزیراعظم نے خود بتایا کہ اک وقت تھا کہ جب ہماری زرعی اجناس بیرون دنیا کو برآمد کی جاتیں تھی اور گذشتہ دو سالوں میں گندم اور چینی وافر مقدار میں درآمد کروانی پڑی۔بکرے کا گوشت اور گائے کا گوشت جوپہلے ہی غریب کی جیب پر بھاری بن چکا تھا اور پاکستان کی قریبا 70 سے 80 فیصد عوام کے لئے بکرے کا گوشت اب luxury item کے طور پر جانا جاتا ہے۔مہنگائی کی وجہ سے مرغی کا گوشت بکرے کے گوشت کے نعم البدل کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا، مگر گذشتہ چند ہفتوں سے مرغی کے گوشت کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ملک کے مختلف شہروں میں اس کی قیمتوں کے بارے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو زندہ مرغی کی ملک میں اوسطاً قیمت پونے تین سو اور تین سو درمیان ظاہر کی گئی ہیں۔ تاہم ملک کے بڑے شہروں میں زندہ مرغی فی کلو چار سو روپوں سے زائد میں بک رہی ہے۔وائس آف امریکہ کے اردو ایڈیشن کے مطابق عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے پاکستان کے لیے چھ ارب ڈالرز کے پروگرام کی اگلی قسط کے حصول کے لیے اسلام آباد کی کوششیں جاری ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف کے بیشتر اہداف رواں ماہ مکمل کرنے کی تیاری کر لی ہے جس کے بعد امکان ہے کہ 24 مارچ کو اس پروگرام کے تحت 50 کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔جس کے بعد پاکستان کو پروگرام کے تحت ملنے والے دو ارب ڈالر کا پروگرام مکمل ہو جائیں گے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی مختلف شرائط پوری کرنے کی وجہ سے ملک میں آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہو گا۔یاد رہے کہ آئی ایم ایف کی طرف سے آئندہ قسط کے لیے سخت شرائط پیش کی گئی تھیں جن میں سرِ فہرست بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، حکومتی ملکیتی اداروں کے خسارہ میں کمی، اسٹیٹ بینک کی خود مختاری، نیپرا اور اوگرا میں اصلاحات اور ٹیکس وصولی کے نظام کو بہتر بنانا شامل ہے۔معاشی امور پر کام کرنے والے صحافی شہباز رانا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جو بڑی شرائط تھیں وہ حکومت نے تقریباً پوری کر لی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا کہا گیا تھا جس کی منظوری کابینہ نے دے دی ہے اور جلد بل اسمبلی میں پیش کر دیا جائے گا۔اس وقت حکومت کے لیے بڑا چیلنج نیپرا سے متعلق قانون سازی ہے۔ اس میں نئی ترامیم قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے پاس موجود ہے اور وہاں حکومت کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ان ترامیم کے تحت حکومت بجلی صارفین پر کسی بھی قسم کا سرچارج لگا سکتی ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ حکومت کسی بھی مد میں کسی بھی وقت اضافہ کر سکتی ہے اور اخراجات پورے کرنے کے لیے یا بجلی چوری سمیت دیگر نقصانات کو عام صارفین پر منتقل کیا جا سکے گا۔ایک اور ترمیم کے مطابق نیپرا کی طرف سے جاری کردہ مختلف ٹیرف کو حکومت اپنی مرضی کے مطابق نوٹیفائی کرتی ہے۔ لیکن نئی ترمیم کے مطابق ایک ماہ تک نوٹیفائی نہ ہونے کی صورت میں نیپرا کا جاری کردہ ٹیرف نافذ العمل ہو جائے گا۔ان ترامیم پر حکومت کو اب تک ارکان پارلیمان کی طرف سے مزاحمت کا سامنا ہے لیکن یہ قانون سازی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔'قرضوں کا دباؤ عام آدمی پر ہی پڑنا ہے'معاشی تجزیہ کار قیصر بنگالی کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت آئی ایم ایف کی شرائط کو ہر طرح سے تسلیم کر رہی ہے اور عوام کے بارے میں سوچ بہت پیچھے ہے۔قیصر بنگالی کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ اقدامات سے عوام پر یقینی طور پر دباؤ بڑھے گا۔ آپ کی آمدن ہو نہیں رہی اور آپ قرض لے کر اپنے اخراجات پورے کر رہے ہیں اور اس کا آخر میں دباؤ عام آدمی پر ہی پڑنا ہے۔ ابھی توڈالر ریٹ157 کے قریب چل رہا ہے، آئی ایم ایف سے قرضہ کی قسط ملنے کے بعد پتا نہیں ڈالر ریٹ کیا ہوجائے، کیونکہ پاکستان کی معیشت ڈالر کے اُتارچڑھائو پر چل رہی ہے۔اسی طرح ڈالر ریٹ میں اضافہ یقینی طور پر ملکی قرضوں میں اضافہ اور مہنگائی میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔آئے روز گیس، بجلی کے بلوں نے عوام الناس کا جینا مشکل ترین کردیا ہے۔سونے پہ سہاگہ ہمارے وزیراعظم عمران خان مہنگائی کا جس وقت نوٹس لیتے ہیں اُلٹا مہنگائی میں اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔اب تو ایسا لگ رہا ہے کہ عوام الناس کا زندہ رہنے کا مقصد صرف اور صرف پانی، بجلی، گیس کے بل ادا کرنا رہ گیا ہے۔ اگر مہنگائی کا یہی سلسہ جاری و ساری رہتا ہے اور عمران خان حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرلیتی ہے تو عمران خان کا عوام الناس کے پاس دوبارہ جاکر حکومت بنانے کے لئے ووٹ لینا انتہائی ناممکن ہوجائے گا۔ محترم عمران خان صاحب عوام آپکو کرپٹ اور چور تو نہیں کہ رہی مگراس وقت پوری قوم کا اک ہی نعرہ ہے کہ میرے کپتان آپ اپوزیشن کے کرپٹ لیڈران کو NRO بالکل نہ دیں مگر مہنگائی اور مہنگائی مافیا کو NRO کیوں دے رہے ہیں؟