معروف افسانہ نگار، مختصر کہانی نویس، سابق ڈپٹی کنٹرولر ریڈیوپاکستان فاطمہ جناح یونیورسٹی کی لیکچرر محترمہ شمع خالد 9 مارچ 2021 کو خالق حقیقی سے جاملیں، 9 مارچ کی صبح انہیں دل کا دورہ پڑا جو جان لیوا ثابت ہوا، شمع خالد کی رحلت کی خبر نے ادبی اور علمی حلقوں کو سوگوار کردیا محترمہ شمع خالد صرف ادبی وعلمی حلقوں، عزیزوں اور رشتہ داروں کی ہر دلعزیز ہستی نہیں تھیں بلکہ ہر وہ شخص ان کے انتقال سے افسردہ اور غمزدہ ہوا جس سے شمع خالد کا غائبانہ تعارف ہی کیوں نہ ہو۔۔ماں کے پیار کی مٹھاس شاید ان کی شخصیت کا وہ حصہ تھی جو ہر کوئی محسوس کرسکتا تھا مگر اس کے باوجود وہ حلقہ احباب ہو یا علمی و ادبی حلقے، ان میں آئرن لیڈی کے نام سے جانی جاتی تھیں، کیونکہ مختلف بیماریوں سے نبرد آزما اس خاتوں نے کبھی بیماریوں کو اپنے کام اور ذمہ داریوں پر حاوی نہیں ہونے دیا ، شمع خالد انتہائی تعلیم یافتہ خاتون ہونے کے باوجود منکسر المزاج اور دوستانہ طبیعت کی مالک تھیں، شمع خالد نے مختلف مضامین میں ماسٹرز کی تین ڈگریاں حاصل کیں اور ایل ایل بی کرکے قانون پر بھی دسترس حاصل کیا، انہوں نے 8 کتابی لکھیں جن میں ایک سفرنامہ بھی شامل ہے ، ان کی لکھی گئی کتابوں کے قارئین کی بڑی تعداد ایک کے بعد ان کی دوسری تحریری کے منتظر رہتے تھے ، شمع خالد کو روزانہ کے چھوٹے چھوٹے معاملات کو ضبط قلم کرنے کا خصوصی شوق تھا، شمع خالد نے صرف علم وادب پر ہی اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھی بلکہ علم وادب کو اپنے بچوں میں بھی منتقل کیا جس کی بدولت آج ان کے تمام بچے اعلی عہدوں پر فائز ہیں ،
انتقال سے قبل اپنے ایک انٹرویو میں محترمہ شمع خالد نے بتایا کہ میں نے جب ریڈیو پاکستان چھوڑا تو اس کے چھ ماہ بعد ہی میرے رفیق حیات سفرادھورا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملے ، میں انتہائی ڈپریشن میں چلی گئی اس دوران مجھے فاطمہ جناح یونیورسٹی سے فون آیا ، پوچھا گیا شمع کیا کررہی ہو، میں جو کررہی تھی انہیں بتادیا کہ میں سوتی ہو ، کھانا کھاتی ہو پھر سو جاتی ہوں تو دوسری طرف سے محبت بھری ناگواری سے کہا گیا یہ کیا کررہی ہو کیوں اپنے آپ کو ضائع کررہی ہو چلو آکر اپنا ریڈیو سنبھالو ۔۔۔ یہ میر ی ہمدرد اور غمگسار ثمین زیدی کا فون تھا بہرحال ان کی محبت کا جواب محبت سے دیا اور ریڈیو سے دوبارہ ناطہ جوڑ لیا ان دنوں میں ہم مینول پر کام کرنے والے لوگ تھے ۔۔ ہمارے پاس بڑی بڑی ریکارڈنگ مشینیں تھیں جن پر کام کرنا پڑتا تھا ایک دم کمپیوٹر نے آکر پوری لائف ہی تبدیل کردی بہرحال ہار ماننا تو سیکھا نہیں تھا لہذا اس چیلنج کو بھی قبول کیا جہاں تک افسانہ نگاری کا تعلق ہے تو میں افسانے جب سے لکھ رہی ہوں جب مجھے افسانے کیا ہوتے ہیں پتہ بھی نہیں تھا، ۔ ساتویں جماعت سے میں افسانے لکھ رہی ہوں باقاعدگی سے ، قیام پاکستان کے وقت میں چھوٹی تھی ، جب امی کسی کام سے کہیں چلی جاتیں تو میں محلے کی لڑکیوں کو اکٹھا کرتی تھی ۔۔ پھر کہتی تھی کہ سارا گھر صاف کرو ۔۔ گھر صاف اور کھانا بنا کر پھر ہم کہتے تھے کہ اب ڈرامہ کریں گیپہلے میں ڈرامہ سوچتی تھی ۔۔ پھر میں اسی طرح کی ایکٹنگ کرتی تھی ۔۔ میںاور میری ساری دوست بہت انجوائے کرتی تھیں
مرحومہ شمع خالد کے سب سے بڑے صاحبزادے عامر نصیر نے اپنی والدہ کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میری والدہ نے بڑی پھر پور زندگی گذاری ۔۔ بطور ادیبہ بطور براڈ کاسٹر بطور معلمہ، بطور ماں ،ہر کردار بہ خوبی نبھایا اور ہر کردار کے ساتھ بھرپورانصاف کیا اگرچہ ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ بیماریوں سے لڑتے اور جنگ کرتے گذارا مگر اس کا اثر اپنی اولاد یا اپنے گھر پر نہیں ہونے دیا اور جب دنیا سے رخصت ہوئیں تو بھی ان کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ تھی ۔ممتاز براڈ کاسٹر تھی معروف افسانہ نگار علی تنہا نے کہا کہ شمع خالد سے میری ملاقات 2004 میں راولپنڈی میں ہوئی تھی ۔شمع خالد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے علی تنہا نے کہا کہ شمع خالد کا پہلا مجموعہ پتھریلے چہرے اور پھر گیان کا لمحہ اور گمشدہ لمحوں کی تلاش اور پھر یہ سلسلہ رکا نہیں ۔۔ اور کہانیوں میں انہوں نے جو انداز اختیار کیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد انداز تھا جس میں انہیں خاص مہارت حاصل تھی ، ۔۔ اور پھر کردار نگاری میں ان کا جواب نہیں تھا اور اس کے ساتھ ساتھ طویل افسانے لکھنے میں شمع خالد نے اپنی زندگی بیشتر حصہ صرف کیا۔۔ شمع خالد وہ شخصیت تھیں جو یاد رکھے جانے لوگوں میں شامل رہیں گی ۔
سابق ڈائریکٹر پروگرام ریڈیو پاکستان شریف شاد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ۔۔ ہماری بہت ہی دیرینہ ساتھی محترمہ شمع خالد اس دنیا سے چلی گئی ۔۔ شمع خالد سے ہمارا تعارف اس وقت ہوا جب وہ پروڈیوسر کے طور پر ریڈیو پاکستان راولپنڈی میں آئیں، جونئیر ہونے کے باوجود پروگرامز اتنے اچھے آئیڈیا زدیا کرتے تھیں کہ سینئرز دانتوں میں انگلیاں داب لیا کرتے تھے خصوصا خواتین کے پروگرامز کی اسپیشلسٹ تھی ۔۔۔ خواتین کے پروگراموں کے شیڈول بناتے ہوئے خواتین کے جو مسائل ہے ان کے بارے میں بہت معلومات رکھتی تھیںسابق اسٹیشن ڈائریکٹر ریڈیو پاکستان راولپنڈی کنیز فاطمہ کہتی ہے جب میں نے ریڈیو پاکستان جوائن کیا تھا تو سب سے پہلے جو خاتون مجھ سے ملنے آئیں تو وہ محترمہ شمع خالد تھیں ۔۔انہوں نے کہا کہ میں آپ کو دیکھنے آئی ہوں ۔ کیونکہ یہاں میں صرف اکیلی پروڈیوسر تھی ۔۔ آپ میرے پاس آئی ہے تو مجھے حوصلہ ملا ہے ۔۔ کیونکہ اس وقت خواتین پروڈکشن کے شعبے میں کم تھیں ۔ کیونکہ ایک بہت پرانا محبت بھرا تعلق تھا میرا ان کے ساتھ ۔۔۔ خواتین پر پروگرام کرنا میں نے ان سے سیکھا ۔ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے اسٹیشن ڈائریکٹر فخر عباس ،شمع خالد کی وفات پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی وفات میرے لیے ایک ذاتی دکھ ہے ۔ ایک ذاتی نقصان ہے ۔۔۔اہل قلم کا ۔۔۔ نشریاتی دنیا کا ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔۔۔ان کے اہل خانہ کا ایک بہت بڑا نقصان ہے ۔۔۔ شمع خالد سے میری شناسائی گذشتہ تین دہائیوں سے تھی۔۔۔ راولپنڈی میں ہم نے اکٹھے کام کیا ۔۔ وہ سینئر پروڈیوسر تھیں اور میں پروڈیوسر تھا ۔۔۔ بعد میں وہ پروگرام مینجر ہوگئی ۔۔۔۔لیکن ان کا جو میرے ساتھ تعلق تھا وہ ایک نشریاتی ادارے کے کولیگ ہونے کے ناطے بھی تھا اور اور لکھنے لکھانے کے حوالے سے بھی جب بھی وہ کوئی نیا افسانہ لکھتیں میں بڑے ذوق شوق سے سنتا اور وہ بھی مجھے نیا افسانہ اتنی ہی دلچسپی سے سناتی تھیں ان کی عام گفتگو بھی ادبی ہوتی تھی جس میں سننے والے کو سیکھنے کے خوب خوب مواقع ملتے تھے ہمیشہ اس جستجو میں ہوتیں کہ کس طرح ادبی پروگراموں کو بہتر سے بہتر کیا جائے ۔۔۔ وہ مطالعہ کی بھی بے حد شوقین تھیں وہ حقیقت پسندی سے افسانہ نگاری کرتی تھی جس میں معاشرتی کرب کی ترجمانی کی جاتی تھی خصوصا خواتین کے مسائل کو وہ بڑی خوبصورتی سے اجاگر کرتی تھیں ، یہی نہیں ان کے اندر ایک مصور بھی چھپا ہوا تھا فطرت سے انہیں بہت عشق تھا ۔۔۔ اور ان کی تحریروں کے اندر جو منظر نگاری ہے قدرت سے فطرت سے عشق کرنے والا ہی ایسی منظر نگاری کرسکتا ہے ۔۔۔ اپنے پروگرامز کے اسکرپٹ خود لکھا کرتی تھیں لیکن ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی ایک کھیپ کو انہوں نے اپنے پروگرامز میں میں متعارف کروایا ۔۔ ان کی یادیں کافی ہیں ، ذاتی زندگی میں ایک ہنس مکھ خاتوں تھیں جو ملنے والے کو اپنا گرویدہ بنا لیا کرتی تھیں ، کبھی انہیں کسی کی شکایت کرتے نہین سنا ۔۔۔ اور کبھی ایسی بات کرتے نہیں سنا کہ کسی کی دل شکنی ہوں ۔۔ وہ سراپا محبت تھیں ۔۔۔ آج ان کا رخصت ہوجانا ۔۔ ہمارے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے ، انہوں نے کرونا کو بھی شکست دی تھی ، اتنی بلند حوصلہ خاتوں تھیں کہ کرونا کے دوران بھی تحریر اور ادب سے اپنا رشتہ نہیں ٹوٹنے دیا ، میں آج جو کچھ بھی ہوں ان کی وجہ سے ہوں ، ان کا ریڈیو سے عشق ومحبت لافانی تھا ، انہوں نے اپنی زندگی کابڑا حصہ ریڈیو کو دیا ، وہ ریڈیو پاکستان کو اون کرتی تھی اور اس جدید میں دور جب ہر شخص ٹی وی اور سوشل میڈیا کی بات کرتا ہے وہ ہر جگہ ریڈیو کے لیے بات کرتی تھیں۔ وہ ہر جگہ فخریہ بتاتی تھیں کہ میرا تعلق ریڈیو سے ہیں ۔