الیکشن کمشن مستعفی ہو

دشمنوں  نے  جو  دشمنی  کی  ہے
دوستوں  نے  بھی  کیا  کمی  کی  ہے 
(حبیب جالب) 
حکومت کی طرف سے کل ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں وزیر تعلیم شفقت محمود،فواد چوہدری اور شبلی فراز شامل تھے تینوں وزراء نے حکومت کی طرف سے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمشنر اور اس کے ارکان استعفٰے دیں کیونکہ وہ صاف اور شفاف سینیٹ کا الیکشن کروانے میں ناکام رہا ہے۔سینیٹ کے الیکشن سے پہلے ڈسکہ کا الیکشن ہوا جس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے بہت اعتراض کیا کیونکہ تیس کے قریب پولنگ اسٹیشن کا رزلٹ لیکر پریذائیڈنگ آفیسرز غائب ہوگئے تھے ۔دن کے اُجالے میں الیکشن کمیشن کے آفس پہنچے جو جو پریذائیڈنگ آفیسر لیٹ رزلٹ لیکر آیا اُن کا ٹرن آوٹ نوے پرسنٹ تھا ۔ جس سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ الیکشن کمیشن صاف شفاف الیکشن کروانے میں ناکام رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کا الیکٹرونک میڈیا پر خوب تماشا بنایا گیا۔سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ تنقید کی گئی ۔ جب الیکشن کمیشن نے تحقیقات کی اور دھاندلی  ثابت ہو گئی تو الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے فاتح امیدوار کا نوٹیفیکشن جاری کرنے سے انکار کردیا اور ساتھ ہی 18 اپریل کو دوبارہ الیکشن کا اعلان کردیا ۔لیکن پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ ماننے سے انکار دیا اور ساتھ ہی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان کردیا ۔ میں جب یہ تحریر لکھ رہا تھا تو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا جس میںسپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی رٹ مسترد کی ہے ۔
چیف الیکشن کمشن کا تقرر اور ارکان کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے کیا جاتا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کے تین نام اپوزیشن کی طرف سے آتے ہیں اور تین حکومت کی طرف سے ۔جسٹس سردار محمدرضا کی مدت مکمل ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے چیف الیکشن کمشنر کے لئے جو تین نام دیئے اُن میں جلیل عباس جیلانی،ناصر کھوسہ اور اخلاق احمد تارڑ کے نام شامل تھے۔ حکومت کی طرف سے بابر یعقوب سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن،فضل عباس میکن اور عارف احمد خان شامل تھے لیکن اِن سارے ناموں پر اتفاق نہ ہو سکا ۔سابق سیکرٹری بابر یعقوب پر اعتراض آنے کے بعد حکومت کی طرف سے سکندر سلطان راجہ کا نام شامل کیا گیا ۔حکومت کے لوگ اُن کو حکومت کے قریب سمجھتے تھے اور کچھ لوگ اِن کو سابق حکمران میاں نواز شریف کے قریب بھی تصور کرتے تھے۔کیونکہ سکندر سلطان راجہ گذشتہ حکومت میں مختلف عہدوں پر رہے تھے۔ سکندرسلطان راجہ کے سسر سعید مہدی سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔
اب حکومت نے اپنے ہی نامزد چیف الیکشن کمشنر سے استعفٰی طلب کیا ہے ۔ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمشن اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام ہوا ہے ۔وزیر اعظم عمران خان نے اپنے نعروں میں کہا تھا کہ میں کبھی غلط بندے کی سلیکشن نہیں کروں گا جس پر کوئی شک کی گنجائش ہو ۔ اب میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر حکومت نے الیکشن کمشن سے استعفٰے لینا ہے تو وزیراعظم عمران خان خود بھی استعفٰی دیں تاکہ عوام کو پیغام جائے کہ وہ خود اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفٰی دے رہے ہیں کیونکہ انہوں نے الیکشن کمشن کے لئے غلط بندے کا انتخاب کیا ہے۔
الیکشن کمشن کو اگر حکومت نے ہٹانا ہے تو اُسے چاہئے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس فائل کرے وہاں سے اپنے اعتراضات ثابت کرے پھر سپریم جوڈیشل کونسل چیف الیکشن کمیشن کو اُن کے عہدے سے ہٹا سکتی ہے ۔ میرا یہ ذاتی خیال ہے یہ الیکشن کمیشن والا محاذ حکومت نے غلط اور جلد بازی میں کھولا ہے اور حکومت کا یہ فیصلہ جلدبازی میں غلط بھی ہو سکتا ہے کیونکہ حکومت کا پہلے ہی فارن فنڈنگ کا کیس الیکشن کمیشن کے پاس چل رہا ہے ۔ حکومت کے اس فیصلے سے رنجشیں بڑھیں گی اور حکومت کے لئے مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ جو ادارہ حق میں فیصلہ دے وہ ٹھیک باقی غلط۔ حکومت کو اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کا محاسبہ کرنا چاہئے جو اُس کو غلط راستے پر چلا رہے ہیں۔ اب بھی اگر حکومت سنجیدہ ہے تو اپوزیشن سے بات کرے اور پارلیمنٹ سے قانون سازی کروا لے تاکہ ہر تین سال بعد جو پیسوں کا بازار لگتا ہے وہ بند ہو۔ 

ای پیپر دی نیشن