آخرت میں کامیابی کا حق دار کون؟

جنت میں کس مذہب کے لوگ داخل ہوں گے ۔ یہودی ، عیسائی یا مسلمان ۔ اس سوال کے جواب کیلئے تینوں مذاہب کے علماء کو دعوت دی گئی ۔ مسلمانوں کی طرف سے اس وقت کے جید عالم امام محمد بن مالک کو دعوت دی گئی ۔ عیسائیوں کی طرف سے ایک بہت بڑے پادری اور یہودیوں کی طرف سے وقت کے نامور ربی کو مدعو کیا گیا ۔ تینوں کے سامنے یہی سوال رکھا گیا ۔میں اپنی بات آگے بڑھانے سے پہلے مذہبی لحاظ سے اپنی علمی اور ذ  ہنی استطاعت کے مطابق چند گذارشات پیش کرنا چاہتا ہوں ۔
اسلام کا علم اور تصور بڑا واضح ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے یعنی خد ا ایک ہے تودنیا کا کوئی ایسا دین نہیں ہے جو دوسراخدا دکھا اور ثابت کر سکے اگر کوئی ایسا دعوی کرتا ہے تو اس کو دوسرا خداعلامتوں اور نشانیوں سے ثابت کرنا ہوگا ۔ یعنی ہمارے خدا کی نشانی یہ ہے کہ وہ سورج مشرق سے نکالتا ہے اور مغرب میں غروب کرتا ہے اگر دوسرا خدا ہے تو وہ سورج کو مغرب سے طلوع کرے اور مشرق میں غروب کرے ۔چلو مغرب نہ سہی شمال یا جنوب میں اس کا طلوع اور غروب کر ے ۔اگر یہ مشکل ہے انسان کے لئے موت کو ختم کر دے انسان پیدا ہو اور کبھی نہ مرے جیتا رہے اور جوان رہے ۔جیسا کہ ہر انسان ہمیشہ زندہ اور جوان رہنے کی تمنا کرتا ہے بچہ عورت سے پیدا ہوتا ہے دوسرا خدا یہ سسٹم مرد وں اور ہیجڑوں میں شروع کردے مگر ایسا نہیں ہوسکتا ۔کوئی یہودی اور عیسائی ہونے کے باوجود اس سے انکار کی جرات نہیں کر سکتا ان کے علاوہ دوسرے مذاہب جو الہامی نہیں اور نہایت باطل و پیچیدہ ہیں جن میں ہندو، بدھ مت ،سکھ اوردیگر عالمی غیر انسانی مذاہب ہیں وہ بھی قدرت کی اس ترتیب سے انکار نہیں کرسکتے ۔ اپنے بے شمار خدائوں کو مسجود ہوتے ہوئے بھی اس تبدیلی کا گمان نہیں کرسکتے ۔ اگر یہ اٹل ہے تو اس کو کنٹرول کرنے اور پیدا کرنے والا ایک خدا ہے جس کو ہم مانتے ہیں۔ وہ ایک ہے۔ نہ اس کی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔ جو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ ہے کیا ۔ تو ان کیلئے عرض ہے کہ خدا کسی کی سمجھ اور شعور کا نام نہیں صرف یقین کا اور ایمان کا نام ہے کہ آسمان لامتناہی چھت ہے جس کے نیچے کوئی ستون نہیں یہ کیسے کھڑا ہے ۔ـ؟ایک عورت کے پیٹ میں پانی کے قطروں سے انسان کیسے بنتا ہے ایک انسان عورت کے پیٹ سے نکل کر کئی مراحل سے گذرتا ہوا بڑھاپے کو پہنچتا ہے اور مر جاتا ہے یعنی جب انسان پیدا ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر بال نہیں ہوتے ۔وہ لڑکپن کو پہنچتا ہے تو اس کے چہرے پر بال آجاتے ہیں لڑکی کی صورت میں نسوانی تبدیلی آجاتی ہے پھر اس کے بال بڑے ہوتے ہیں پھر گھنے ہو جاتے ہیں اور ایک لڑکا مرد جبکہ ایک لڑکی عورت بن جاتی ہے پھر وہ جوانی سے گذرتے ہوئے ایک نئی نسل کو جنم دیتے ہوئے بوڑھے ہو کر مرجاتا ہے میرا ان سے سوال ہے جو کہتے ہیں کہ خدا کیا ہے کہ جو میں نے اوپربیان کیا  یہ کیا ہے ۔ایک صاف چہرے سے بال کیسے نمودار ہوتے ہیں کیا یہ شعور اور سمجھ میں آ سکتا ہے ۔نہیں نا ۔ تویہی دین اسلام ہے کہ کائنات کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتی اور اس کو بنانے والا بھی سمجھ سے بالا تر ہے جو سوچتے ہیں کہ یہ کائنات سائنس کی نظر میں حادثاتی ہے وہ یہ نہیں سوچتے کہ جس ذہن نے یہ نظریہ ایجاد کیا ہے ان کا ذہن کسی غیبی پاور اور اپروچ کا محتاج ہے ۔ان کا ذہن مائوف ہو جائے تو وہ زیرو ہیں یہی اسلام ہے کہ اس کائنات کا مالک اور پروردگار ایک ہستی ہے جو خدا ہے جس کا کوئی شریک اور ثانی نہیں ۔اس کی کوئی اولاد نہیں نہ وہ کسی کی اولاد ہے جو اس عقیدہ پر ایمان رکھتا ہے وہ مسلمان ہے اور وہی اس کی بنائی ہوئی جنت کا حقدار ہے جو اس کی ذات اور صفات میں انسانی خیالات اور رشتوں کو شامل کرتے ہیں وہ اس کی رضا اور خوشنودی کو نہیں پا سکتے ۔میں اپنی بات پر واپس آتا ہوں۔ ہمیں اس بات پر ناز ہے کہ ہم اللہ تعالی کو ایک مانتے ہیں اس کی دنیا کے سسٹم کو تسلیم کرتے ہیں ۔اس کے انبیا ء پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کو پیغمبر و رہبر مانتے ہیں جو اس کی وحدانیت اور عظمت بیان کرتے رہے جنہوں نے اس کے پیغام کو سمجھ اور مان لیا ان کے لئے انعام میں جنت رکھ دی گئی جنہوں نے انکار کیا ان کا ٹھکانہ جہنم بنا دیا گیا ۔ وہ بھی جنت نہیں جائیں گے جنہوں نے اس کو تو مان لیا مگر اس کی ذات و صفات اور وضع کردہ قوانین کوانسانی ضرورتوں اور تصورات کے مطابق بدل ڈالا ۔ ہم جنت میں جائیں گے کہ ہم نے اس کے نظام کو من و عن تسلیم کیا ہے اور اس کی ذات و صفات میں ملاوٹ کو کفر قرار دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہم جنت کے حقدار ہیں مگر وہ لوگ جو پارسا اور متقی ہیں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا خیال رکھتے ہیںہم بحیثیت مسلمان جنت کے حقدار ہیں مگر وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے باوجود اس زمین پر خود کو خدا سمجھتے ہیں اور خود کو دوسرے انسانوں سے محض طاقت اور دولت کی بنا پر ممتاز سمجھتے ہیں ان کا معاملہ خدا پر ہے وہ خود جنت سے دوری پر جارہے ہیں ۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...