حکومت نے سینیٹ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی سپریم کورٹ میں شو آف ہینڈز کے تحت سینیٹ الیکشن کرانے کے لئے درخواست دائر کی جس پر 5رکنی بنچ بنا۔ جس میں سب سے مناسب فیصلہ جسٹس یحیٰی آفریدی نے لکھا کہ آئین میں سینیٹ الیکشن کے انعقاد کا طریقہ کار درج ہے کہ سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ کے تحت منعقد ہوں گے اسی لئے یہ درخواست ناقابل سماعت ہے لیکن باقی ججوں نے بلاوجہ اس پٹیشن میں وقت ضائع کیا۔ الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کرکے شو آف ہینڈز کے ذریعے سینیٹ الیکشن منعقد کرانے کی کوشش کی لیکن الیکشن کمیشن نے آئین کے تحت درخواست مسترد کردی ۔ اب حکومت بلاجواز الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہی ہے۔
پہلے سینیٹ اراکین کے انتخاب میں حیران کن نتائج سامنے آئے اور اس سلسلے میں حکومت و اپوزیشن کی جانب سے دوطرفہ الزام تراشی اور ویڈیو ثبوت پیش کئے جاتے رہے۔ سینیٹ اراکین کے چناؤ میں حکومت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تو اپوزیشن نے ان نتائج کو جمہوریت کی فتح قرار دیکر مریم نواز نے برملا اعتراف کیا کہ ادارے سینیٹ الیکشن سے مکمل طور پر لاتعلق رہے جبکہ حکومت نے یوسف رضا گیلانی کے بیٹے کی ویڈیو ثبوت کے طور پر پیش کی اور دعوٰی کیا کہ انہوں نے اراکین کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ بتاکر دھاندلی پر اکسایا اور وزیراعظم عمران خان نے خود اعتراف کیا کہ سینیٹ الیکشن کا اعلان ہوتے ہی ہمارے اراکین کو آفرز ہونا شروع ہوگئیں اور بولی کا آغاز 2کروڑ روپے سے ہوا۔ عمران خان نے خود سینیٹ الیکشن میں موجودہ ماحول اور جمہوریت پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے کہا کہ ہم نے اسی لئے شفاف الیکشن کے انعقاد کے لئے پیشرفت کی کوشش کی۔
یہ عجب جمہوریت ہے جس میں پہلے تو کسی پارٹی سے سینیٹ کا ٹکٹ کا لینے کے لئے آپ کو کروڑوں روپے کی آفر کرنی پڑتی ہے اور جب ٹکٹ مل جائے تو ووٹ خریدنے کے لئے فی ووٹ کروڑوں روپے دیکر اپنا انتخاب ممکن بنانا ہوتا ہے۔ اتنی بھاری رقوم خرچ کرکے سینیٹ میں پہنچنے والے ظاہر ہے اپنا خرچ سود سمیت قومی خزانے سے ہی پورا کرتے ہیں۔ یہاں یہ حال ہے کہ آپ کے پاس بے پناہ پیسہ ہے تو آپ پورا سینیٹ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سمیت خرید سکتے ہیں۔
اسی مناسبت سے مجھے یاد آیا کہ جب بھٹو صاحب وزیراعظم تھے اور خان عبدالولی خان مرحوم اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک تقریر کی تھی جس پر بہت شور مچ گیا تھا۔ خان عبدالولی خان مرحوم نے کہا تھا کہ یہاں سینیٹ الیکشن میں بھاری رقوم لیکر ووٹ دیا جاتا ہے اور حقیقت حال یہ ہے کہ اگر بھارت ان اراکین پارلیمنٹ کو بھاری رقوم دے دے تو یہ اس بات پر بھی متفقہ قرارداد منظور کرلیں گے کہ ہمیں پاکستان نہیں چاہئے جس پر انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا لیکن ان کا یہ بیان حقائق کا مکمل عکاس تھا۔ موجودہ سینیٹ الیکشن میں یہ بات بالکل واضح ہوگئی کہ خان عبدالولی خان مرحوم کی باتیں درست تھیں ۔
میرا اس سے تعلق نہیں کہ اپوزیشن یا حکومت کس کو فتح و شکست ہوئی۔ میرا اعتراض طریقہ کار پر ہے جسے اختیار کرکے پاکستان کے قانون ساز ایوان بالا کو دولت کے بل بوتے پر خریدا گیااور چیئرمین تک کے الیکشن میں جمہوریت کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔اس موقع پر عمران خان صرف شو آف ہینڈز کے تحت سینیٹ الیکشن کا مطالبہ کرتے رہے حالانکہ اس کے لئے انہیں پہلے متفقہ طور پر آئین اور رولز میں تبدیلی کرنی تھی کہ خفیہ رائے شماری کے بجائے شو آف ہینڈ کرایا جاتا۔ سینیٹ میں دولت کی بنیاد پر خریداری سے اجتناب کے لئے بہتر تو یہ ہوگا کہ جس جماعت کو پارلیمنٹ میں جس قدر نشستیں ملیں‘ اسی شرح سے اسے سینیٹ میں نشستیںالاٹ کردی جائیں۔
چیئرمین سینیٹ چھوٹے صوبوں کو دینا ہے تو اس کے لئے بہتر تو یہی ہوگا کہ طے کرلیا جائے کہ 1-1بارچاروں صوبوں سے باری باری چیئرمین سینیٹ لیا جائے اور جس سال جس صوبے کی باری ہو‘ اسی صوبے سے امیدوار فارم جمع کرانے کے اہل قرار پائیں۔
دولت کے عنصر سے سیاست کی جان چھڑانے کے لئے متناسب نمائندگی کا طریقہ کار ہی درست ہے ۔ یہاںسیاست دان اپنی نااہلیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے آسان طریقہ کار پر متفق ہیں اور تمام تر خامیوں کا الزام اداروں پر عائد کرکے خود کو فرشتہ ظاہر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ موجودہ حکومت کو آئے بھی اب 3سال مکمل ہونے کو ہیں‘ انہوں نے الیکشن کا طریقہ کار درست کرنے پر سنجیدگی سے کیا کام کیا؟ صرف بیان بازی سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی کہ ہم دھاندلی اور خرید و فروخت کے خلاف ہیں لیکن عملی طور پر قانون سازی کرکے رولز میں مناسب تبدیلی کیوں نہیں کی گئی؟ یہاں جو بھی سیاسی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے وہ اپنی شکست کا الزام فوج اور عدلیہ پر عائد کرتی ہے لیکن کھلی آنکھوں سے یہ دیکھنے کی جسارت نہیں کی جاتی کہ ہم نے بطور سیاستدان ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرکے کونسی ایسی کارکردگی دکھائی ہے جس سے ہمیں ملک کے لئے ناگزیر سمجھا جائے؟
سیاست دان جب چاہتے ہیں فوج اور عدلیہ پر تنقید کرلیتے ہیں اور جب چاہتے ہیں انہیں غیرجانبدار قرار دیکر ان کی کارکردگی کو سراہتے نہیں تھکتے۔ اب سینیٹ ممبران کے انتخاب اور چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے دوران کی فتح و شکست کے ساتھ سیاستدانوں کے بیان بدلتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاستدان اپنی کوتاہوں کا ملبہ اداروں پر ڈال کر خود کو فرشتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ جنرل کیانی سے لیکر موجودہ آرمی چیف تک فوج سیاست سے مکمل طور پر لاتعلق ہے۔ فوج تو جمہوریت کی حامی ہے لیکن حالات سب کے سامنے ہیں کہ سیاستدان کس قدر جمہوریت پسند اور اہلیت کے حامل ہیں۔