معزز قارئین ! کل 3 شعبان اُلمعظم( 18 مارچ 2021ئ) کو پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمانوں نے نواسۂ رسول ؐ فرزند ِ ’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؓ و خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ اُلزہرا ؓ ، امام ِ عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یوم میلادِ مسعود عقیدت و احترام سے منایا ۔ درحقیقت امامِ عالی مقامؓ یا آئمہ اطہار ؓ کا جب بھی یومِ میلادِ مسعود یا یوم وِصال منایا جاتا ہے تو ’’ حسینیت ؓاور یزیدیت‘‘ کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ یکے از فرزندانِ مولا علیؓ خواجہ غریب نواز نائب رسولؐ فی الہند ، حضرت مُعین اُلدّین چشتی ؒنے حضرت امام حسینؓ کی عظمت بیان کرتے ہُوئے فرمایا کہ …
شاہ ہَست حُسینؓ، پادشاہ ہَست حُسینؓ!
دِیں ہَست حُسینؓ ، دِیں پناہ ہَست حُسینؓ!
سَردَاد ، نَداد دَست ، در دَستِ یزید!
حقّا کہ بِنائے لا اِلہ ہَست حُسینؓ!
یعنی۔ ’’ہمارے ( اصل) شاہ اور بادشاہ حضرت امام حُسینؓ ہیں۔ دِینِ اسلام اور دِین کی پناہ بھی امام حُسینؓ ہی ہیں (آپؓ نے دِین کی بقا کے لئے ) اپنا سر قلم کروالیا لیکن ،خلافت کے نام پر یزید ؔ کی ملوکیت اور خاندانی بادشاہت کو قبول نہیں کِیا‘‘۔
’’حضرت سیّدہ زینب ؓ !‘‘
معزز قارئین ! یکم شعبان اُلمعظم (16 مارچ 2021ئ) کو دُنیا بھر کے مسلمانوں نے خاتم اُلنبین صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم کی نواسی ، حضرت علی مرتضیٰ ؓکی صاحبزادی ، حضرت بی بی زینب ؓ کا یوم ولادت بھی عقیدت و احترام سے منایا ! سانحہ کربلاؔ میں حضرت امام حسین ؓ اُن کے افراد خاندان اور عقیدت مند ساتھیوں کی شہادتوں کے بعد ، اسلام کو زندہ رکھنے میں بی بی زینب ؓ کا کردار ناقابلِ فراموش ہے ۔ مدینہ سے کربلا اور کربلا سے شام تک شُہدا ء کی بیوائوں اوریتیم بچوں کو اپنی سرپرستی میں لے کر سیّدہ زینبؓ کا سفر۔ کوفہ اور شام کے بازاروں میں آپؓ کی تقریروں ، یزید کے دربار میں فصیح و بلیغ خطبوں اور برجستہ جوابات کے بارے مؤرخین لکھتے ہیں کہ ’’ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا حضرت علی مرتضیٰ ؓ خطبہ دے رہے ہیں ! ‘‘
’’ سیّد اُلشہدا حسین ؓ !‘‘
معزز قارئین ! مَیں نے کئی حمد ہائے باری تعالیٰ نعت ہائے رسول مقبولؐ مولا علیؓ دوسرے آئمہ اطہارؓ اہلِ بیت ؓ اور اولیائے کرامؒ کی منقبتیں لکھی ہیں ۔ آج سیّد اُلشہدا حضرت امام حسینؓ اور سیّدہ زینب ؓ کی منقبتوں کے چند اشعار پیش کر رہا ہُوں ملاحظہ فرمائیں …
صاحب کردار فخر مِلّت بَیضا حُسینؓ!
کار گاہِ کُن فکاں میں مُنفرد یکتا حُسینؓ!
سیّد اُلشہدا حُسینؓ
…O…
اُن کا نصب اُلعین تخت و تاج تو ہر گز نہ تھا!
رَزم گاہ میں دین کی خاطر تھے صف آرا حُسینؓ!
سیّد اُلشہدا حُسینؓ
…O…
حضرت مولُودکعبہ ؓکا قبیلہ کٹ گیا!
اِک طرف طاغُوت سارے اِک طرف ،تنہا حُسینؓ!
سیّد اُلشہدا حُسینؓ
…O…
علی ؓ کی بیٹی سلام تُم پر !
خُدا کی رحمت مَدام تُم پر!
رِدائے خَیراُالاَنامؐ تُم پر!
بتُول ؓ کا نُورِ تام تُم پر!
علیؓ کی بیٹیؓ سلام تُم پر!
…O…
مُلوکِیت جیسے غم کدہ، تھی!
یزِیدیت زلزلہ زدہ تھی!
ہے ختم زورِ کلام تُم پر!
علیؓ کی بیٹی ؓ سلام تُم پر!
…O…
یعنی ’’ اگر دِین اسلام ( محض) عِلم میں ہوتا تو پھر ( میدانِ کربلا میں اہل بیتؓ ) کے سَروں کو نیزوں پر کیوں چڑھایا جاتا ؟ سانحۂ کربلا کے وقت یزید کی سلطنت میں 18 ہزار عُلمائے دِین (سُو) موجود تھے ۔ انہوں نے یزید کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیوں نہیں کِیا؟اور اُنہوں نے حضرت امام حُسینؓ پر اپنی جانیں کیوں نہ قربان کردِیں ؟ اگر وہ عُلماء حق پرست ہوتے تو وہ آل رسولؐ کے خیموں کو آگ کی نذر کیوں ہونے دیتے؟ اگر اُس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ حضورؐ کی اطاعت / تابعداری کرنے والے ہوتے تو وہ اہلِ بَیتؓ کا پانی کیوں بند کرتے ؟ ۔ اے باہوؒ ! جو لوگ حق پرست لوگوں کے لئے قربانی دے سکیں وہی دِین کی حفاظت کرنے والے اور سچے ہیں ! ‘ ‘ ۔
’’فرمانِ امام عالی مقام ؓ !‘‘
معرکۂ کربلا سے پہلے امام عالی مقام حضرت امام حُسین ؓ نے فرمایا کہ ’’ بعض لوگ دُنیا کے غُلام اور دِین کو اپنی زندگی کے وسائل فراہم کرنے کے لئے لُعاب ؔ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو اُن کی زبانوں سے چمٹا رہتا ہے! ‘‘ ۔ معزز قارئین !۔ سانحہ کربلا کے بعد یہی ہُوا ؟۔اکثرعُلماء یزید کے غُلام بن گئے اور بعد کے مسلمان بادشاہوں کے وہ دین ؔ کو اپنی زندگی کے وسائل کی فراہمی کو ایک لُعاب ؔکے طور پر استعمال کرتے رہے ۔ انہی عُلماء نے بادشاہوں کو ’’بادشاہوں کو خُدا وندی یا کُلّی ‘‘ اختیار حاصل کرنے کا عقیدہ ۔ یعنی۔ ’’ بادشاہوں کی نیابتِ الٰہی کا نظریۂ ‘‘ (Divine Right of Kings) پیش کِیا۔ دراصل ’’ حسینیتؓ اور ’’ یزیدیت‘‘ اب بھی دو مختلف ’’نظریات ‘‘ (Theories) ہیں ۔ مصّورِ پاکستان علاّمہ اقبالؒ اور بانی ٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ ’’حسینیت ؓکے علمبردار‘‘ تھے اور عُلمائے سُو اُن کے مخالف؟۔
…O…