میاں جاوید لطیف ‘داغ ندامت

 شیخوپورہ سے مسلم لیگی رکن قومی اسمبلی میاں جاوید لطیف نے پاکستان کو بد دعا دی ہے۔ تہی دست جاوید لطیف اور پاکستان کو دے ہی کیا سکتا ہے۔ 
شیخ سعدی کی حکایت ہے کہ ایک بادشاہ کشتی میں سفر کر رہا تھا کہ اس کا چہیتا غلام پانی کو دیکھ کر مارے خوف کے رونے لگا اور اس کی چیخ و پکار نے بادشاہ کے لئے سفر بدمزہ کردیا‘ اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی مگر اس کا خوف بڑھتا گیا ایک وزیر نے بادشاہ سے کہا کہ اگر وہ اجازت دیں تو اس غلام کا خوف دور کیا  اور اسے چپ کرایا جا سکتا ہے ۔ بادشاہ نے کہا کہ ضروری ہے اس کا چپ ہونا‘ وزیر موصوف نے دو غوطہ خوروں سے کہہ کر غلام کو دریا میں پھینکوا دیا‘ اسے چند غوطے آئے تو غوطہ خوروں نے اسے باہر نکال لیا۔ وہی غلام جس نے اپنی چیخوں سے سارا ماحول بدمزہ کر رکھا تھا‘ اطمینان سے کشتی میں بیٹھ گیا اور دریا کی لہروں کو سکون سے دیکھنے لگا۔ بادشاہ نے حیرت سے وزیر کو پوچھا کہ اب اسے کیا ہوا یہ تو آرام سے بیٹھا ہے وزیر نے جواب دیا‘ بادشاہ سلامت ‘ اس نے ڈوبنے کی اذیت کا ذائقہ نہیں چکھا تھا۔ اسے کشتی کی عافیت کا سرے سے اندازہ ہی نہ تھا‘ اب یہ ڈوبنے کی اذیت سے گزر چکا ہے لہٰذا اسے کشتی میں سوائے عافیت کے اور کچھ دکھائی نہیں دے گا۔ جاوید لطیف جیسے ناقدروں کو اس ملک کی کیا قدر‘انہوں نے ڈوبنے کی اذیت نہیں دیکھی انہیں ڈوبنے کی اذیت دیکھنی ہو تو شام ‘ عراق‘ افغانستان‘ فلسطین اور کشمیر میں رہنے والے بچوں کو دیکھیں جو عزت اوران کی مائیں محبت کو ترستی ہیں ۔ یہ ٹھنڈے دودھ کو پھونکیں مارنے والے غیرت کی کمی کا شکار‘ کیا جانیں کہ پاکستان کتنی بڑی عافیت ہے ۔
 ضلع شیخوپورہ کے گاؤں کوٹ رنجیت سنگھ میں دو ایکڑ کے ’’زمیندار‘‘ محمد لطیف جو بعدازاں میاں لطیف کہلانے لگے ایک نجی بنک میں ملازمت کرتے تھے اور بمشکل اپنے پانچ بیٹوں کے اخراجات پورے کرتے تھے۔ جاوید لطیف جو بعد میں میاں جاوید لطیف بن گئے مجھے یاد ہے کہ گھنٹوں اخبارات میں خبر شائع کرانے کے لئے مختلف اخبارات کے رپورٹنگ سیکشن میں محض سنگل کالم خبر کی اشاعت کے لئے منتیں ترلے کیا کرتے تھے جس نے بارہا انہیں لاہور کے ایک اخبار کے استقبالیہ پر رپورٹرز کے منتظر دیکھا۔
2 ایکڑ کے ’’زمیندار‘‘ کا رقبہ وراثتی تقسیم کے بعد جاوید لطیف کو شائد اڑھائی کنال زرعی رقبہ نصیب ہوا مگر آج وہ جس پاکستان میں اربوں پتی ہیں اور جس پاکستان کو انہوں نے ہر طریقے سے لوٹا (واضح رہے کہ ان میں سے کوئی بھی طریقہ اخلاقی نہیں)آج اس پاکستان کو بدعائیں دیتے ہیں۔ 
مشکوک تعلیم کے حامل میاں جاوید لطیف میٹرک کی مشکوک سند کی وجہ سے شیخوپورہ کالج کے ریگولر طالب علم نہ تو بن سکے البتہ آؤٹ سائیڈر کے طور پر کالج آنا جانا رہا۔ پھر اﷲ بھلا کر ے آزاد کشمیر کی الخیر یونیورسٹی کا جس کی برکت سے ملک بھر کے نالائقوں‘ آوارہ گردوں اور نکموں نے گریجویٹ کہلانا شروع کر دیا انہی میں میاں جاوید لطیف بھی شامل ہیں یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں الخیر یونیورسٹی کے ریکارڈ کو لگنے والی آگ نے بہت سوں کے بھرم رکھ لئے اور ان کے تعلیمی عیوب کی ستر پوشی کردی۔ 
1990 کی دہائی میں مولانا طاہر القادری کے ٹکٹ پر ممبر ضلع کونسل بننے والے میاں جاوید لطیف بعد ازاں ایم پی اے بھی بن گئے مگر مشرف دور میں بی اے کی شرط آڑے آ گئی جس پر انہوں نے اپنے بھائی منور لطیف کو الیکشن لڑایا جو کامیاب نہ ہو سکے۔ اﷲ اﷲ کر کے بی اے کی شرط ختم ہوئی اور میاں جاوید لطیف رکن بطور قومی اسمبلی کامیاب ہو گئے پھر مسلسل تیسری مرتبہ رکن قومی اسمبلی بننے آ رہے ہیں۔ 
کاروباری زندگی کا آغاز جناح پارک کے علاقے میں گارمنٹس کا ٹھیلا لگا کر کیا جو بعد میں سٹال کی شکل اختیار کر گیا اور جلد ہی دکان میں تبدیل ہو گیا۔ 1990 کی دہائی میں موصوف اور ان کے بھائی کے خلاف جعلی کرنسی اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا مقدمہ درج ہوا مگر بعد ازاں ان مقدمات کے ساتھ بھی وہی ہوا‘ جو عموماً اس ملک میں کاریگر قسم کے افراد کے خلاف درج مقدمات کا ہوتا ہے انہی ایام میں ان کے بھائی نے ایک آفیسر کو سینکڑوں افراد کی موجودگی میں تشدد کا نشانہ بنایا مقدمہ درج ہوا مگر صلح پر ختم ہو گیا۔ 
جناح پارک کے سٹال سے شروع ہونے والے کاروبار کو جب سیاسی پشت پناہی ملی تو سرکاری اراضی پر فلور مل اور درجنوں کاروبار بڑھتے چلے گئے۔ شیخوپورہ سے شروع ہونے والے سی این جی اسٹیشن چوری شدہ گیس کی ’’برکت‘‘ سے پشاور اور سرگودھا تک پھیل گئے اور پھر دن رات موسلادھار بارش کی طرح برسنے والی حرام کی دولت نے وہ دن بھی دکھلائے کہ گیس چوری پکڑنے کے لئے ریڈ کرنے والی اعلیٰ سطحی ٹیم کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر معافی بھی ان چوروں کی بجائے سوئی گیس والوں کو مانگنی پڑتی۔ 
یہ پاکستان ہے جہاں کالی زبانوں اور کالے کرتوتوں والوں کو کھلی چھٹی ہے ورنہ جس قسم کی چوری اور جعلسازی میں موصوف کی زندگی اٹی پڑی ہے کوئی اور ملک ہوتا تو اب تک جیلوں میں موصوف زندگی کی درجنوں بہاریں خزاں میں تبدیل ہوتی دیکھ چکے ہوتے‘ جس ملک کا کھاتے ہیں جس ملک کو لوٹتے ہیں جس ملک کے عوام سے عزت پا کر اس کی توہین اور تذلیل کرتے ہیں اس ملک کو بددعا دیتے ہیں تو اس قماش کے سیاہ کاروں کو وفود کی صورت میں عراق شام میانمار فلسطین اور اس طرح کے درجنوں ممالک اور شہروں میں چند دن کے لئے عام شہری کی طرح رکھا جائے تو انہیں پاکستان کی قدر ہو۔ 
حرام کا مال پہچان ختم کر دیتا ہے معلوم نہیں کہ میاں جاوید لطیف نامی (س) داغ ندامت نے جس نے دھرتی ماں کو گالی دی ہے اور دھرتی ماں کی توہین کی ہے نہ جانے کس کی تربیت ہے مگر کیا کہئے۔ 
مشعل مشہور ہے کہ کبھی کبھی آموں کے درختوں پر پھل کی بجائے کانٹے (سولاں) بھی لگ جاتے ہیں اس میں درخت کا قصور نہیں ہوتا۔ ہو سکتا ہے کہ میاں جاوید لطیف بھی پھلدار درخت کی گود میں اگا ہوا کانٹا ہی ہوں۔ پاکستان کو گالی دینے والے جاوید لطیف اور اس قماش کے دیگر لوگ یاد رکھیں کہ جن ملکوں میں اس طرح سے بمباری ہوئی کہ اس بمباری کے لئے ’’کارپٹ بمبنگ‘‘ کی اصطلاح  متعارف ہوئی اور اگر ابھی تک پاکستان بچا ہوا ہے تو اس کے محافظ بہت چوکنے ہیں اور انشاء اﷲ رہیں گے۔ میاں جاوید لطیف جیسے ٹھگنے اور کوتاہ اندیش یاد رکھیں کہ جب نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو گھر میں کھانے کو کچھ تھا نہ ہی مال و زر البتہ ایک روایت کے مطابق آپ ﷺ کے گھرمیں9جبکہ دوسری روایت کے مطابق 21 تلواریں موجود تھیں اور میرے اﷲ کے کرم سے ضرب اور اہل ضرب میں بہت دم  ہے اور ہر آنے والا دن اس دم میں اضافہ کر رہا ہے جس کی برکت سے پاکستان کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ حرام مال غیرت ختم کر دیتا ہے اور میاں جاوید لطیف آپ نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کی مخالفت کر کے اپنے صاحب غیرت ہونے پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے۔ 
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن