ایوان میں موجود ارکان منحرف ممبر کا ووٹ چیلنج کریں گے، بابر اعوان


اسلام آباد ( شاہزاد انور فاروقی) حکمران جماعت اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کی حکمت عملی طے پاگئی۔ وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اس حکمت عملی کے چیدہ نکات بیان کیے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے مطابق آئین پاکستان کا دیبایچہ، عدل اسلامی پر مبنی ہے۔ شفافیت ،پابندیوں اور حدودکے اسی نظرئیے کے تحت آرٹیکل 63 اے آئین میں شامل کیا گیا کہ ملک میں ووٹ فروشی اور ضمیر فروشی کے دھندے کو روکا جاسکے۔انہوں نے کہا کہ ووٹ ایک طرح سے بیعت والی امانت ہے جو کروڑوں لوگ منتخب 342 لوگوں کے حوالے کرتے ہیں اور 342 لوگ اللہ کی قسم کھا کر اس امانت کی حفاظت کا حلف اٹھاتے ہیں۔ سیاسی لوگوں کو استعفیٰ دینے سے آئین میں منع نہیں کیا گیا لیکن ان منتخب سیاسی لوگوں پر آئین نے تین پابندیاں عائد کی ہیں۔1۔ جس پارٹی سے منتخب ہوئے ہیں اس کے ڈسپلن کی پابندی آئین میں تحریر ہے۔2۔ سیاسی جماعت چھوڑنا چاہیں تو استعفیٰ کی اجازت ہے لیکن استعفیٰ دئیے بغیر کسی اور پارٹی کوووٹ نہیں دے سکتے۔3۔ آئین پابندی عائد کرتا ہے کہ سیاسی جماعت کے منتخب ارکان اپنی سیاسی جماعت کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کریں گے۔مشیر برائے پارلیمانی امور نے مزید بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں 2018ء میں ایک مقدمہ کی پیروی کی تھی جو آرٹیکل 62/63 سے متعلق تھا جس کے فیصلے کے نتیجے میں میاں نوازشریف اور جہانگیرترین کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے میں آرٹیکل 62 F کی تشریح میں پانچ رکنی بینچ نے قرار دیا کہ آئین میں جس نااہلی کی سزا کی مدت طے نہیں ہے وہ تاحیات سمجھی جائے گی۔ اس فیصلے کوتحریرکرنے والے جج جسٹس عمر عطاء بندیال ہیں جو آج کل پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔صدر پاکستان کی جانب سے آئین کے آرٹیکل  86A کے تحت سپریم کورٹ آف پاکستان میں سوال پیش کیا جائیگا کہ جو نمائندے ہارس ٹریڈنگ کے مرتکب ہوں گے کیا وہ تاحیات نااہلی کے زمرے میں آئیں گے یا نہیں اور دوسرا یہ کہ کیا ایک سیاسی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے نمائندے کسی دوسری سیاسی جماعت کو ووٹ ڈال سکتے ہیں یا نہیں؟ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ عائشہ گلالئی کی نااہلی کے کیس میں انہیں تکنیکی بنیادوں پر فائدہ ہوا تھا کہ انہیں باقاعدہ تحریری ہدایات جاری نہیں ہوئیں اور شوکاز جاری نہیں ہوا تھا لیکن اب ایسی خامیوں کو دور کیا جائیگا۔ڈاکٹر بابر اعوان نے انکشاف کیا کہ کسی ممبر کو ووٹ ڈالنے کے لیے جانے سے نہیں روکا جائیگا بلکہ ایوان میں موجود حکومتی ممبر منحرف ممبر کے ووٹ کو چیلنج کرے گا جس پر سپیکر قومی اسمبلی  اپنی رولنگ دے گا جس کے بعد 172 ووٹوں کی گنتی پوری کرنے یا نہ کرنے کا مرحلہ ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ سپیکر کی رولنگ کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ اس گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کے جتنے بھی اراکین منحرف ہو جائیں اپوزیشن کو ہر صورت حکومت کی اتحادی جماعتوں کی اور ان کے 17 ووٹوں کی ضرورت ہوگی اس کے بغیر 172 کا عدد حاصل نہیں کیا جاسکے گا مزید یہ کہ اگر یہ تحریک ناکام ہو گئی تو چھ ماہ سے پہلے یہ تحریک دوبارہ بھی جمع نہیں کرائی جا سکے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...