پاکستان کا دفاع اور بھارتی میزائل


کشمیر میں ایل او سی پر صورتحال کشیدہ نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں۔ ان کے درمیان بیک چینل کھلے رہتے ہیں اور دونوں ملک بیک چینل ڈپلومیسی کے ذریعے آپس میں گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں 1.6بلین افراد آباد ہیں جن کو ایٹمی جنگ سے محفوظ رکھنا دونوں ملکوں کی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ ہفتے غیرمتوقع طور پر ایک بھارتی میزائل میاں چنوں کے علاقے میں آ گرا۔بھارتی افواج کے مطابق، یہ حادثاتی واقعہ تھا۔ سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئر فیلو سشانت سنگھ نے اس واقعہ پر متوازن تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ کسی بھی ملک کی فضائی حدود میں داخل ہونے والی کوئی بھی شے حملہ تصور کی جاتی ہے ایسی صورت میں دفاعی قواعد وضوابط یہی کہتے ہیں کے میزائل آنے کی صورت میں آپ بھی جوابی حملہ کریں تو پاکستان کی جانب سے ایسا نہ کرنا سمجھ داری کے ساتھ ساتھ ایک سلجھا ہوا فیصلہ بھی ہے۔مبصر نے اپنی تحریر میں مناسب سوال اٹھایا ہے کہ تصور کریں اگر میزائل حادثاتی طور پر پاکستان کی جانب سے آیا ہوتا اور بھارت کی سرزمین پر گرا ہوتا تو کیا بھارت کی قیادت اور میڈیا پاکستان کی وضاحت کو قبول کرتے؟
سشانت سنگھ کا تجزیہ درست ہے۔ پاک بھارت تعلقات کا تاریخی ریکارڈ گواہ ہے کہ بھارت پاکستان پر بے بنیاد الزامات لگا کر عالمی سطح پر اس کے خلاف پروپیگنڈا کرتا رہا ہے اور اس کی پوری کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو دہشت گرد ریاستوں میں شمار کیا جائے۔ فیٹف کے مسئلہ پر بھی پاکستان کے ساتھ جو متعصبانہ اور ناروا سلوک کیا جا رہا ہے اس کے پیچھے بھی بھارتی لابی کا ہاتھ ہے۔ پاکستان کے عوام اپنے مضبوط اور مستحکم دفاع پر مکمل یقین رکھتے ہیں اور افواج پاکستان پر پورا اعتماد رکھتے ہیں اور وہ یہ جانتے ہیں کہ پاک فوج کا شمار دنیا کی دس بہترین پیشہ ورانہ افواج میں ہوتا ہے، البتہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ہمیشہ خدشات اور تحفظات رہے ہیں۔ سفارتکاری کے معاملے میں بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو ناکام بنایا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے سفارتکاروں کو میرٹ اور اہلیت کی بنیاد پر نامزد کرنے کی بجائے انہیں اکثر اوقات سیاسی تعلق اور اقربا پروری کی بنیاد پر نامزد کیا جاتا ہے۔
نیشنل ازم کے حوالے سے بھی پاکستان ابھی تک بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ پاکستان کی مقتدر اشرافیہ اکثر اوقات قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی بجائے ذاتی اور گروہی مفادات کو زیادہ اہمیت دیتی رہی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے پاکستان میں بھارت کے سفیر کو دفتر خارجہ بلا کر بھارتی میزائل کے بارے میں اپنی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو فون کرکے بھارتی میزائل کے بارے میں پاکستان کی تشویش سے آگاہ کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالیں تاکہ بھارت پاکستان کا یہ جائز مطالبہ تسلیم کر لے کہ حساس نوعیت کے واقعہ کی تفتیش کے لیے مشترکہ کمیٹی بنائی جائے۔ بھارت نے اپنی غلطی کو تسلیم کرتے ہوئے پاکستان سے معذرت بھی کی ہے اور اس حادثہ کے سلسلے میں اعلیٰ سطحی تفتیش کا اعلان بھی کیا ہے۔ امریکہ اور چین نے بھارت اور پاکستان سے کہا ہے کہ دونوں ملک آپس میں گفتگو کرکے یہ مسئلہ حل کریں، البتہ چین نے پاکستان کے اس موقف کی حمایت کی ہے کہ اس واقعہ کی تفتیش کے لیے مشترکہ ٹیم بنائی جائے۔
پاکستان کے اندر آج کل چونکہ اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ حکومتی جماعت اپنی آئینی مدت پورا کرنا چاہتی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کر رکھی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اقتدار کی جنگ کے ماحول میں بھارتی میزائل کے بارے میں عوام کے جذبات کی ترجمانی نہیں کی اور پاکستان کی سالمیت اور دفاع کے بارے میں بڑی سرد مہری کا رویہ اختیار کیا ہے جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہے۔ امریکہ کے معروف میڈیا ادارے بلو مبرگ کے مطابق، پاکستان نے بھارتی میزائل واقعے کے بعد جوابی حملے کی تیاری کرلی تھی مگر پاکستان کو عین وقت پر یہ محسوس ہو ا کہ ایک حادثاتی واقعہ ہے جس کے جواب میں شدید ردعمل کی ضرورت نہیں۔ بھارت نے جب پلوامہ میں پاکستان پر حملہ کیا تھا تو پاکستان کی افواج نے نہ صرف یہ حملہ پسپا کیا بلکہ کامیاب جوابی حملہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا۔ پاکستان نے بھارتی فوجی ہیلی کاپٹر کو مار گرایا اور پائلٹ کو گرفتار کر لیا۔
بدقسمتی سے آزادی، سلامتی اور خود مختاری کے حوالے سے پاکستان کا ریکارڈ حوصلہ افزا نہیں رہا۔ اکثر اوقات کمزور اور کرپٹ حکمران عالمی طاقتوں کے دباؤ کا شکار ہوتے رہے ہیں اور خود مختاری کے سلسلے میں کمپرومائز کرتے رہے ہیں۔ امریکہ کے سابق صدر کلنٹن اپنی کتاب ’مائی لائف‘ میں لکھتے ہیں کہ امریکی انتظامیہ کو خفیہ ایجنسیوں نے اطلاع دی کہ اسامہ 20 اگست 1998ء کو کو افغانستان کے کیمپ میں اپنے رفقاء کے ساتھ اجلاس کرنے والا ہے۔ القاعدہ کی قیادت کو ختم کرنے کا یہ آخری موقع تھا۔ خدشہ یہ تھا کہ اگر پاکستان کو پہلے پتا چل گیا کہ امریکہ القاعدہ کے کیمپ پر حملہ کرنے والا ہے تو پاکستان طالبان اور القاعدہ کو مطلع کر سکتا ہے اور اگر اعتماد میں نہ لیا جائے تو وہ غلط فہمی سے بھارت پر ایٹمی ہتھیاروں سے جوابی حملہ کر سکتا ہے۔ چنانچہ ہم نے فیصلہ کیا کہ وائس چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف جو رالسٹن پاکستان کا دورہ کریں اور پاکستان کے آرمی چیف جہانگیر کرامت کے ساتھ ڈنر کریں اور عین وقت پر آرمی چیف کو مطلع کر دیں کہ پاکستان کی فضا سے گزرنے والے میزائل امریکہ کے ہیں جن کا نشانہ اسامہ بن لادن ہے۔ پاکستان اگر آزاد اور خود مختار ملک ہوتا تو وہ اپنی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر سخت احتجاج کرتا۔ ایک دو میزائل پاکستانی علاقے میں گرے جن سے گیارہ پاکستانی شہری ہلاک ہو گئے۔ اپوزیشن کے سخت ردعمل کے بعد نواز شریف نے کلنٹن کو فون کرکے گلہ کیا۔ ( ’مائی لائف‘، صفحہ 799)
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے کمزور اور کرپٹ حکمرانوں نے پاکستان کو اندرونی اور بیرونی طور پر سخت نقصان پہنچایا جس کی وجہ سے پاکستان آج تک اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔ اگر اقتدار کی ذاتی، سیاسی اور گروہی مصلحتوں کی بجائے قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی تو آج پاکستان ہر حوالے سے دنیا کے عظیم ممالک میں شمار ہو چکا ہوتا۔ پاک فوج کے نوجوان جو سرحدوں پر ہماری آزادی اور سلامتی کے لیے اپنی نوجوان جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں وہ ہمارے محسن اور قومی ہیرو ہیں اور پاکستانی قوم ان کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے:
اے راہِ حق کے شہیدو، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں 

ای پیپر دی نیشن