سید ابرار حسین
(سابق سفیر افغانستان ،کویت ، نیپال)
اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کا اڑتالیسواں باقاعدہ اجلاس 23-22 مارچ 2022ء کو اسلام آباد میں منعقد ہورہا ہے۔ اس سے صرف تین مہینے پہلے یعنی پچھلے سال دسمبر میں اسلامی ممالک کے وزراء خارجہ کا ایک غیر معمولی اجلاس بھی اسلام آباد میں ہوا تھا جس کا مقصد افغانستان میں انسانی المیے کوروکنے کے لیے وہاں کے عوام کی مدد کے طریقوں پر غور کرنا تھا۔
یہ حقیقت ہے کہ اسلامی تعاون تنظیم کے قیام کے وقت سے ہی پاکستان کا اس کے ساتھ بہت مضبوط تعلق رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا فروغ ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا ایک مرکزی نکتہ ہے چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان نے ہمیشہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کی ہے ۔ اپنے قیام کے چند ماہ بعد ہی 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ میں تقسیم فلسطین کی قرارداد نمبر 181 کی مخالفت میں ووٹ دے کر پاکستان فلسطین کے حامیوں میں شامل ہوگیا اور تب سے لے کر اب تک فلسطینی بھائیوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں پاکستان نے ایشیاء اور افریقہ میں چلنے والی آزادی کی تحریکوں کا بھرپور ساتھ دیا۔1980ء کی دہائی میں پاکستان نے آٹھ سالہ ایران عراق جنگ کو روکنے کے لیے قابل ذکر کوششیں کیں۔ اسی دہائی میں پاکستان نے پڑوسی ملک افغانستان سے آنے والے پچاس لاکھ کے لگ بھگ مہاجرین کی میزبانی کا ریکارڈ قائم کیا ان میں سے بہت سے مہاجرین اب تک پاکستان میں موجود ہیں۔یہی نہیں ' پاکستان عالم اسلام کو درپیش کچھ اور مسائل جیسے بوسنیا' یمن' لیبیا' برما اورآذربائیجان کے معاملات کو سلجھانے میں بھی پیش پیش رہا ہے۔
پاکستان اسلامی تعاون تنظیم کے بانی ارکان میں شامل ہے۔ 1969ء میں اسرائیل نے مسجد اقصی کو آگ لگائی تو مسلمانان عالم اس کے خلاف یکجہتی کے اظہار کے لیے اکٹھے ہوگئے اور 25 ستمبر 1969ء کو رباط (مراکش ) میں پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ پاکستان نے اس کانفرنس میں اعلی ترین سطح پر شرکت کی۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد پہلی دفعہ امت مسلمہ کے اتحاد کا مظاہرہ تھا۔ اس کے بعد 1970ء میں جدہ (سعودی عرب) میں اسلامی وزراء خارجہ کا اجلاس ہوا جس میں تنظیم کا ایک سیکرٹریٹ بنانے اور ایک سیکرٹری جنرل منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔1972ء میں تیسری اسلامی وزراء خارجہ کانفرنس نے تنظیم کا ایک باقاعدہ چارٹر بھی منظور کرلیا۔ یہ ساری پیشرفت آہستہ آہستہ جاری رہی ، مگر اسلامی تعاون تنظیم میں دوبارہ روح پھونکنے کا سہرا پاکستان ہی کے سر ہے،جب فروری 1974ء میں دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس پاکستان کی میزبانی میں لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی دعوت پر عالم اسلام کے سب مقتدر رہنماؤں نے شرکت کی جن میں سعودی عرب کے شاہ فیصل' فلسطین کی تحریک آزادی کے سربراہ یاسر عرفات' لیبیا کے صدر قذافی' مصر کے صدر انورالسادات' شام کے صدر حافظ الاسد' ملائیشیاء کے وزیراعظم تنکو عبدالرزاق' کویت کے امیر شیخ صباح' متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ زید' سوڈان کے صدر جعفرالنمیری' یوگنڈا کے صدر عیدی امین جیسی معروف شخصیات شامل تھیں۔ لاہور میں چیئرنگ کراس پر موجود سمٹ مینار ہمیں آج بھی اس تاریخی کانفرنس کی یاد دلاتا ہے۔
اس کے تقریباً 23 سال بعد 1997ء میں قیام پاکستان کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اسلامی تعاون تنظیم کا ایک غیر معمولی سربراہ اجلاس اسلام آباد میں منعقد کیا گیا۔ اس کے علاوہ اب تک پاکستان نے اسلامی وزرائے خارجہ کے چار باقاعدہ اور دو غیر معمولی اجلاسوں کی میزبانی کا اعزاز بھی حاصل کیا ہے۔ ان میں سے آخری باقاعدہ اجلاس مئی 2007ء میں اسلام آباد میں ہونے والا وزراء خارجہ کا 34 واں اجلاس تھا۔
اسلامی تعاون تنظیم کے ایک اہم رکن کی حیثیت سے پاکستان کی شروع ہی سے یہ کوشش رہی ہے کہ اس تنظیم کو دنیا بھر میں ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی مؤثر آواز بنایا جائے اور اس کے ذریعے مسلمانوں کے مسائل کو نہ صرف اْجاگر کیا جائے بلکہ انہیں حل کرنے کی سمت بھی پیش رفت کی جائے۔ چنانچہ اس تنظیم کے تحت کئی اہم اداروں کے قیام میں پاکستان نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ایسے اداروں میں اسلامی ترقیاتی بنک' آزاد کمیشن برائے انسانی حقوق اور اسلاموفوبیا پر مشاہداتی مرکز سر فہرست ہیں۔ تنظیم کے دو اہم اداروں یعنی کمیشن برائے سائنس اور ٹیکنالوجی (کامسٹیک)اور اسلامی ایوان صنعت وتجارت کے مرکزی دفاتر پاکستان میں واقع ہیں۔
اسلامی تعاون کی تنظیم نے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں بھی قابل ذکرکردار ادا کیا ہے۔1994ء میں تہران میں ہونے والی کانفرنس میں کشمیر پر ایک رابطہ گروپ بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ گروپ کشمیر کے حالات پر نظر رکھتا ہے۔ اور اپنے اجلاسوں میں وہاں کی تازہ ترین صورت حال پر غور کرتا ہے۔ یہ گروپ ہر سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر بھی وزارتی سطح پر اپنا اجلاس منعقد کرکے اقوام متحدہ سے کشمیر کے بارے میں مختلف اقدامات کا مطالبہ کرتا ہے۔
اس پس منظر میں پاکستان ایک دفعہ پھر امت مسلمہ کے وزراء خارجہ کی میزبانی کا شرف حاصل کرے گا۔ ہمارے لیے اس اجلاس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ پاکستان کی 75 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد ہورہا ہے۔ مزید برآں یہ ایسے حالات میں ہورہا ہے جب اسلامی دنیا بے شمار مسائل کی زد میں ہے۔ اہل فلسطین اور اہل کشمیر بدستور حق خوداردیت سے محروم ہیں بہت سے ممالک میں مسلمان نفرت انگیز رویوں اور اسلاموفوبیا کا شکار ہیں کروڑوں بے یارومدگار افغان غربت' بھوک اور بیماری کا مقابلہ کررہے ہیں۔ ایسے میں بطور میزبان پاکستان کی یقیناً یہ خواہش اور کوشش ہوگی کہ مسلمان ممالک ان تمام مسائل کے بارے میں کوئی متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
اسلامی تعاون تنظیم کے وزراء خارجہ کے اڑتالیسویں باقاعدہ اجلاس کا موضوع '' اتحاد ' انصاف اور ترقی کے لیے شراکت داری '' ہے اور اس میں جن مسائل پر بحث متوقع ہے وہ بہت متنوع ہیں مثلاً امن اور سیکیورٹی ' اقتصادی ترقی' سائنسی اور ثقافتی شعبوں میں تعاون' اسلامی تعاون تنظیم کے کردار کو بہتر بنانے کی کوشش وغیرہ کاامکان ہے کہ ان مسائل کے بارے میں ایک سو سے زیادہ قراردادیں منظور کی جائیں گی۔ یہ کانفرنس تین مہینے پہلے ہونے والے غیر معمولی اجلاس کے فیصلوں پر عملدرآمد کی پیشرفت کا جائزہ بھی لے گی۔
امید واثق ہے کہ پاکستان میں ہونے والی یہ کانفرنس امت مسلمہ کے اتحاد' یکجہتی' ترقی اور خوشحالی میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔ مسلم ممالک کو یہ یادرکھنا چاہیے کہ انفرادی طورپر وہ کتنی ہی کوشش کیوں نہ کرلیں جب تک وہ متحد نہیں ہوں گے دنیا میں اپنا مقام نہیں بناسکیں گے بقول شاعر
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ بکھرے ہوئے ان تاروں سے کیا کام بنے