عبداللہ شفیق پاکستان کرکٹ کا مستقبل ہیں کراچی ٹیسٹ میں جس مشکل وقت میں انہوں نے کپتان بابر اعظم کے ساتھ مل کر لمبی بیٹنگ کی تین سو سے زائد گیندیں کھیلیں اور آسٹریلیا کے بہترین باؤلنگ کا تحمل مزاجی کے ساتھ مقابلہ کیا یہ ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے یقیناً عبداللہ اس ٹیسٹ میچ کو کبھی نہیں بھولیں گے اور یہ اننگز ہمیشہ ان کے لیے یادگار رہے گی گوکہ وہ چار رنز کی کمی سے سینچری مکمل نہیں کر سکے لیکن اس کے باوجود کسی بھی طرح ان کی کوشش کو کپتان بابر اعظم اور محمد رضوان سے کم تر قرار نہیں دیا جا سکتا بلکہ عبداللہ شفیق کی یہ اننگز اس اعتبار سے بابر اور رضوان سے ذرا مختلف ہے کہ نوجوان بیٹر اپنے کیرئیر میں پہلی مرتبہ ایسے دباؤ کا سامنا کر رہے تھے جبکہ بابر اعظم اور محمد رضوان کئی مرتبہ ایسی صورتحال سے گذر چکے ہیں وہ بین الاقوامی کرکٹ کا بھی وسیع تجربہ رکھتے ہیں جب کہ عبداللہ کو کیرئیر کے آغاز ہی میں مشکل وقت میں لمبی بیٹنگ کرنا پڑی ہے۔ گوکہ نیشنل سٹیڈیم کی پچ بیٹنگ کے لیے آسان تھی لیکن آسان پچ کے ہوتے ہوئے پاکستانی بیٹرز سے ان کی پانچ سیشنز تک بیٹنگ کا کریڈٹ نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیسٹ میچ میں دو دن بیٹنگ کرنا آسان نہیں ہے۔ چوتھے اور پانچویں دوز تو بیٹنگ اور بھی مشکل ہو جاتی ہے اور جب کسی ٹیم کے لیے ٹیسٹ میچ بچانے کا ہدف ہو تو حالات اور زیادہ مشکل ہوتے ہیں ان حالات میں عبداللہ شفیق جیسے نوجوان کرکٹر نے تحمل مزاجی سے بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے انتخاب کو درست ثابت کیا ہے۔ یقیناً اس نوجوان میں یہی وہ خاص بات تھی جس نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان، ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر مصباح الحق کو بہت متاثر کیا۔ عبداللہ کو منتخب کرنے اور انہیں ٹیم کے ساتھ رکھنے پر مصباح الحق کو ہمیشہ تنقید کا سامنا رہا لیکن افتتاحی ٹیسٹ میچ اور پھر پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن میں کاہور قلندرز کی نمائندگی کرتے ہوئے عبداللہ شفیق نے بہترین کرکٹ سے صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ وہ پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن میں ناصرف دلکش شاٹس کھیل کر متاثر کرتے رہے، مشکل حالات میں کریز پر جمے رہے بلکہ بہترین فیلڈنگ سے بھی اپنی ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ سابق ہیڈ کوچ مصباح الحق کہتے ہیں کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ عبداللہ ٹیم کے ساتھ سیر کر رہا ہے درحقیقت ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ہم اس کی بیٹنگ میں بہتری کے لیے کام کر رہے تھے اسے کئی جگہ مسائل کا سامنا تھا ہم اس پر کام کر رہے تھے۔ شاہد اسلم نے اس کی بیٹنگ پر بہت کام کیا ہے۔ عبداللہ بہت باصلاحیت ہے اسے کھیل کا شعور ہے، تکنیکی لحاظ سے بہت مضبوط ہے، ٹمپرامنٹ بہت اچھا ہے۔ اگر وہ پاکستان کے لیے لمبا نہ کھیلے یا اچھے کھیل کا مظاہرہ نہ کرے تو یہ میرے لیے حیران کن ہو گا۔ جب تک وہ ٹیم کے ساتھ تھا سیکھتا رہا، گوکہ قومی ٹیم کے لیے منتخب ہونے سے پہلے بہت کم کرکٹ کھیلا لیکن وہ جہاں بھی کھیلا دباؤ کا تحمل مزاجی کے ساتھ مقابلہ کیا اور اپنی کارکردگی سے فرق ڈالنے میں کامیاب رہا۔ پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے اسے قومی ٹیم کے ساتھ رکھا۔ قومی ٹیم کے سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ عبداللہ شفیق تکنیکی اعتبار سے مضبوط بیٹر ہیں ان کے پاس بہت شاٹس ہیں، انہیں رنز بنانے کے لیے کچھ غیر معمولی نہیں کرنا پڑتا بلکہ وہ درست انداز میں بیٹنگ کرتے ہوئے بھی بہتر سٹرائیک ریٹ سے رنز کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
افتتاحی ٹیسٹ میچ سے نظروں میں آنے والے عبداللہ شفیق نے جب تک بنگلہ دیش کے خلاف پہلے ٹیسٹ میچ میں نصف سینچری سکور نہیں کی تھی کرکٹ دیکھنے والوں کے لیے وہ ایک عام سے بیٹر تھے لیکن پہلے ٹیسٹ میچ کے بعد ان کے بارے رائے تبدیل ہوتی گئی پھر جب راولپنڈی میں وہ آسٹریلیا کے خلاف میدان میں اترے اور ناٹ آؤٹ ایک سو چھتیس رنز کی اننگز کھیلی تو دیکھنے والوں کو اندازہ ہوا کہ مصباح الحق کیوں اس نوجوان بیٹر کے حوالے سے اتنے پر اعتماد تھے پھر جب نیشنل سٹیڈیم کراچی میں انہوں نے دوسری اننگز میں تین سو سے زائد گیندیں کھیل کر پاکستان کو یقینی شکست سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا تو اس کے بعد عبداللہ کی صلاحیتوں پر کسی کو شک نہ رہا۔ وہ بہترین گراؤنڈ شاٹس کھیلنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں جب کہ بوقت ضرورت بڑے شاٹس کھیلنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ گیند کو ٹائم کرتے ہیں، دو فیلڈرز کے درمیان سے کھیلتے ہیں اور جب باؤلرز کی رفتار کو استعمال کرتے ہیں تو بہت دیکھنے والا داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ لاہور قلندرز انتظامیہ کو بھی ان سے بہت توقعات ہیں۔ عبداللہ کے لیے اچھا موقع ہے کہ اس کے اردگرد بابر اعظم اور محمد رضوان جیسے کامیاب کرکٹرز ہیں۔ بابر اعظم کی ترقی میں مکی آرتھر کے کردار کو سراہا جاتا ہے اگر کوچ کا کردار اہم ہے تو پھر محمد رضوان اور عبداللہ شفیق کے معاملے میں مصباح الحق کو بھی کریڈٹ ضرور ملنا چاہیے۔ پاکستان سپر لیگ کے ساتویں ایڈیشن میں اس نوجوان بیٹر نے دنیا کو بتایا ہے کہ پاکستان باصلاحیت کرکٹرز کی سرزمین ہے۔ کراچی ٹیسٹ کے بعد عبداللہ کے حوالے سے بہت بات ہو رہی ہے۔ نوجوان بیٹر کہتے ہیں کہ یقیناً لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میں اپنے افتتاحی میچوں میں بہت اچھا پرفارم کرتا ہوں ان حالات سے توقعات میں اضافہ ہوتا ہے اور سمجھا جائے کہ یہ عادت بھی ہے اس حوالے سے یہی کہنا چاہوں گا کہ میں یہ سوچ کر میدان میں اترتا ہوں کہ جب بھی کھیلوں سو فیصد یا اس سے بھی زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کروں اور جو پراسس ہے اسے اچھے طریقے سے کروں تاکہ وہ مجھے آگے جا کر کام آئے اور میدان میں جانے سے پہلے یہ نہیں سوچتا کہ ایسا کروں گا بس کوشش کرتا ہوں کہ اپنے سارے پراسس کے باکسز کو ٹِک کروں۔ ہر میچ، ہر پریکٹس سیشن میں کچھ ایسا کروں کہ مستقبل میں مدد ملے۔ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم ہم سب کھلاڑیوں کے لیے سب سے بہتر اور سب سے اچھی مثال ہیں، ہمیں چاہیے کہ ان کو فالو کریں اور ان جیسا پرفارم کرنے کی کوشش کریں اور وہ جیسا جا رہے ہیں اللہ اْن سے ایسی مزید پروفارمسز کروائے۔ ہم سب کے لیے کافی موقع ہے کہ بابر اعظم کو دیکھیں ان سے سیکھیں اور بہتر کرکٹ کھیلیں۔ رکی پونٹنگ میرے سب سے فیورٹ بیٹر ہیں وہ ابھی کھیل نہیں رہے لیکن جب بھی انہیں دیکھتا ہوں تو بہت کچھ سیکھتا ہوں۔ مجھے ان کا ایٹیٹیوڈ اور گیند کو لیٹ کھیلنا کافی اچھا لگتا ہے ان کی یہ خوبی مجھے بہت متاثر کرتی ہے۔ میں ہمیشہ کوشش کرتا ہوں جو میں نیچرل ہوں اس میں رہوں اور اسی کو پالش کروں۔ میرا انداز یہ گراؤنڈ شاٹس کا ہے نیچے نیچے کھیلتا ہوں کوشش کرتا ہوں کہ ان میں ہی رنز کروں۔ جتنا آپ کنٹرول کے ساتھ کھیلتے ہیں بیٹنگ کرتے ہوئے حالات قابو میں رہتے ہیں اور اس طرح تسلسل بھی آتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بڑے شاٹس کو نظر انداز کرتا ہوں بڑے شاٹس اکی بھی پریکٹس کرتا ہوں۔ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو بھی فارمیٹ ہے سب کی بیسک ایک ہی ہے۔ ہر فارمیٹ کے لحاظ سے کھیل میں تھوڑی ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے اور شارٹس ڈیویلپ کرنا ہوتی ہیں اور اس پر ساتھ ساتھ کام کر رہا ہوں۔ ہر پلیئر کے کھیلنے کا اپنا انداز ہوتا ہے اور میرا یہی ہے اور میں کوشش کروں گا کہ اس کو زیادہ سے زیادہ اور ہر ممکن بہتر بنانے کی کوشش کروں گا۔ میرا وائٹ بال کا ڈیبیو بہتر نہیں گیا لیکن اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ کافی لمبی کرکٹ کھیلنی ہے بہت لمبا سفر ہوتا ہے آپ کو شروع سے ہی سوچ لینا چاہیے لیکن اگر اچھا نہیں بھی ہوا تو کوشش کریں آگے چل کر اسے بہتر کر بنائیں، مستقبل میں غلطیاں نہ دہرائیں میں یہی کرتا ہوں ہر وقت بہتر پرفارمنس دینے اور کھیل کو بہتر بنانے پر توجہ دیتا ہوں۔ لاہور قلندر ہائی پرفارمنس سینٹر میں کافی سہولیات تھیں وہاں بہت کچھ سیکھنے کو ملا شاہین آفریدی اور حارث رؤف کا موازنہ کیا جائے تو شاہین زیادہ بہتر اور مشکل ہیں کیونکہ جب آپ ایک بیٹر کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو کیا چیزیں ایسی ہیں کہ ان کے خلاف رنز کرنا یا ان کے خلاف وقت گزارنا زیادہ مشکل ہے۔ شاہین آفریدی آپ کو پتہ ہے کہ بیسٹ با?لرز میں سے ہیں۔ ان کی سوئنگ اور پیس دونوں اچھی ہیں ان حالات میں کسی بھی بیٹر کے لیے ٹیکل کرنا ذرا مشکل ہوتا ہے۔ مصباح بھائی سے بات ہوتی رہتی تھی جب وہ کوچ بھی تھے تو یہی تھا کہ ہم نے کیسے بہتری لانی ہے اور مزید آگے کیسے جانا ہے۔ اپنی بیٹنگ میں کیا چیزیں ہیں کہ میں ان کو مزید ٹھیک کر سکتا ہوں تو ان چیزوں کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھوں تو ان سے بات ہوتی رہتی تھی انہوں نے بہت پریکٹسں کروائی اور وہ مجھے بتاتے رہتے تھے ان کا ساتھ میرے لیے کافی اچھا رہا۔ کافی کچھ سیکھا میں نے ان سے اور آگے بھی جب ٹائم ملے گا تو ان سے سیکھوں گا۔ میری منزل یہ ہے کہ اپنی گیم کو زیادہ سے زیادہ انجوائے کروں جب بھی کھیلوں جب بھی موقع ملے تو اپنا بیسٹ کرنے کی کوشش کروں اور یہ کوئی خاص ہدف مقرر نہیں کیا بس میں جتنا بھی کھیلوں کرکٹ سے لطف اندوز ہونا اور ٹیم کے لیے اچھی پرفارمنس کرنا چاہتا ہوں۔
بابر اعظم ہمارے لیے سب سے بہتر مثال ہیں۔ نوجوان اوپنر عبداللہ شفیق کی باتیں
Mar 19, 2022