لاہور/ کراچی(یو این پی) اداکار محمد علی کی17ویں برسی آج19مارچ کو منائی جائے گی ۔محمد علی پاکستان فلم انڈسٹری کا بہت بڑا نام اور ایک لیجنڈ اداکار تھے۔محمد علی کافلمی سفر 1962 میں چراغ جلتا رہا سے شروع ہوا، پھر محمد علی کے فن کا چراغ برسوں روشن رہا۔شہنشاہ جذبات محمد علی، فلم انڈسٹری کی سنہری تاریخ انکے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔محمد علی نے اپنے کیرئر کا آغاز ریڈیو پاکستان حیدرآباد، سندھ سے کیا۔ ان کی بھرپور آواز نے انہیں ایک بہترین ریڈیو صداکار کی حیثیت سے منوایا اور انہیں فلمی دنیا تک پہنچانے میں بھی ان کی آواز نے ہی اہم کردار ادا کیا۔اس وقت ایک ڈرامے کی صدا کاری کے دس روپے ملا کر تے تھے۔بعد ازاں انہوں نے ریڈیو پاکستان بہاولپور سے بھی پروگرام کیے۔ان کی آواز سن کر ریڈیو پاکستان کے جرنل ڈرائریکٹر ذوالفقار احمد بخاری المعروف زیڈ اے بخاری صاحب نے انہیں کراچی بلا لیا۔ سونے کو کندن بنانے میں زیڈ۔ اے بخاری مرحوم کا بہت ہاتھ تھا۔ انہوں نے محمد علی کو آواز کے اتارچڑھاو¿، مکالموں کی ادائیگی، جذبات کے اظہار کا انداز بیاں اور مائیکرو فون کے استعمال کے تمام گر سیکھا دیئے۔ زیڈ۔ اے بخاری نے ان کی آواز کی وہ تراش خراش کی کہ صدا کاری میں کوئی ان کا مدمقابل نہ رہا۔سن 1962میں فلم’چراغ جلتا رہا‘سے فلمی کیرئرکا آغازکیا۔ فلم کا افتتاح کراچی کے نشاط سینما میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ فلم زیادہ کامیاب نہ ہو سکی مگر محمد علی کی اداکاری اور مکالمے بولنے کے انداز نے دوسرے فلم سازوں اور ہدایتکاروں کو ضرور متوجہ کر لیا اور جلد ہی ان کا شمار ملک کے معروف فلمی اداکاروں میں کیا جانے لگا۔جبکہ محمد علی کی اور مقبول فلم ” شرارت“ 1964ء میں ریلیز ہوئی۔محمد علی کی مشہور فلموں میں جاگ اٹھا انسان ، اموش رہو، ٹیپو سلطان ، جیسے جانتے نہیں، آگ ، گھرانہ ،میرا گھر میری جنت ،بہاریں پھر بھی آئیں گی ،محبت ،تم ملے پیار ملا اور دیگر بہت سی فلمیں شامل ہیں۔پہلی فلم کے بعد محمد علی نے ابتدائی پانچ فلموں میں بطورولن کام کیا۔ محمد علی کو شہرت 1963ء میں عید الاضحی پرریلیز ہونے والی فلم ’شرارت‘سے ملی۔
انہوں نے درجنوں فلموں میں بحیثیت ہیرو کے کام کیا۔ ان کی فلموں کی زیادہ ترہیروئن ان کی اپنی اہلیہ زیبا تھیں نیز ان فلموں میں زیادہ ترگانے جو ان پر فلمائے گئے ان کے گلوکار مہدی حسن تھے۔انہوں نے 300 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔’علی زیب‘کی جوڑی اتنی کامیاب تھی کہ انہوں تقریباً 75 فلموں میں اکٹھے کام کیا۔محمد علی نے کبھی بھی سیاست میں حصہ نہیں لیا۔ ان کے ذوالفقار بھٹو کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے۔ 1974ءمیں مسلم سربراہی کانفرنس میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سلطان قابوس اورشاہ فیصل شہید نے علی زیب ہاو¿س میں ہی قیام کیا تھا،اسی دوران فلسطین آزادی کے رہنما یاسر عرفات مرحوم نے بھی محمد علی سے ملنے کی خواہش کی تھی، اور مسقط عمان کے سلطان قابوس نے انھیں غیرسرکاری سفیر کی حیثیت سے تعریفی شیلڈ پیش کی، ایران کے شہنشاہ نے پہلوی ایوارڈ دیا۔اس طرح عالمی سطح پر محمد علی کو مقبولیت حاصل رہی۔ پاکستان میں ہر سربراہ حکومت سے ان کے اچھے اور قریبی تعلقات قائم رہے۔ بھٹو کی حمایت کرنے پر 1977ء میں جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں انھیں جیل بھی کاٹنی پڑی۔ تاہم حالات ٹھک ہونے کے بعد جنرل ضیاءا لحق سے محمد علی کے اچھے اور قریبی تعلقات ہو گئے۔ وہ ضیاءالحق کے ساتھ 1983ء میں بھارت کے دور پر بھی گئے۔ نواز شریف سے ان کے بہت قریبی تعلقات رہے، وہ ان کے ایڈوائز بھی رہے،محمد علی کو اسی طرح ہمیشہ قومی سطح پر اولیت دی جاتی رہی۔انھوں نے “علی زیب فاو¿نڈیشن” کے تحت سر گودھا، فیصل آباد، ساہیوال اور میانوالی میں تھیلسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج اور کفالت کے لیے ہسپتال قائم کیے، جہاں بلا معاوضہ بچوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس ادارے کے تمام اخراجات وہ اپنے وسائل سے پورے کرتے تھے۔ “علی زیب فاو¿نڈیشن” کے علاوہ محمد علی کئی اداروں کے صدر اور فاو¿نڈر ممبر رہے۔ ان تمام اموار میں ان کی پیاری بیوی بھی ان کے ہم رکاب رہیں۔ نجی سطح پر بھی علی زیب ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد معاونت کرتے رہتے تھے۔ انھوں نے کئی بیواو¿ں اور یتیموں کے وظیفے مقرر کر رکھے تھے۔ بہت سے غریبوں کے گھر کے چولہے محمد علی کے امدادی چیک سے جلتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے ساتھیوں کے ب±رے وقت میں کام آتے تھے۔محمد علی نے 277 فلموں میں کام کیا جن میں 248 اردو، 17 پنجابی، 8 پشتو، 2 ڈبل وریڑن انڈین، 1 بنگالی، 28 فلموں میں بطور مہمان اداکار اور ایک ڈاکو منٹری فلم میں کام کیا۔پاکستانی سینما کے یہ لازوال فنکار 19 مارچ 2006 میں اچانک دل کا دررہ پڑنے پردنیا سے کوچ کرگئے۔