علی اصغر عباس
کوئی وقت تھا کہ لوگ سال بھر کی محنت رنگ لانے پرمیلوں ٹھیلوں کا اہتمام کیا کرتے تھے جو اپنے اپنے اپنے علاقے کی تہذیب و ثقافت کے آئینہ دار ہوتے تھے۔نئے دور میں ان میلوں میں نئی طرز کے میلوں کا اضافہ ہوا ہے جنہیں ادبی و ثقافتی فروغ کے لئے کتاب میلے کا نام بھی دیا جارہا ہے جو باقاعدہ طور پر معاشی سرگرمیوں کو عروج دینے کا سبب بھی بنے ہیں جس سے میلہ لگانے والوں کا دھندہ بھی خوب چل نکلا ہے۔
اس قماش کے دھندے میں کہیں کہیں کوئی اچھائی کرنے والے بھی اپنی طبع کے مطابق ایسے مثبت اقدام کرگذرتے ہیں جن سے ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی روایتی جھلک اپنی چھب دکھلا کر سنجیدہ ادبی کام کرنے والوں کو مایوسی کے اندھیروں میں گرنے سے بچا لیتی ہے۔ایسا ہی کچھ نیک کام کیا ساہیوال یونیورسٹی کے مدارلمہام پروفیسر ڈاکٹر جاوید اختر نے جن کی ہدایت پر یونیورسٹی آف ساہیوال میں مجید امجد لٹریری سوسائٹی کے زیر انتظام دو روزہ لٹریری فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔جامعہ ساہیوال میں مجید امجد لٹریری سوسائٹی کا قیام ہی ایک عظیم شاعر کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جس کے تحت نوجوان طلبہ میں ادبی شعور اجاگر کرنے کے لئے مختلف ادبی سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جامعہ ساہیوال کے طلبہ کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں مبشر سعید جیسے جواں ترنگ اور جواں سال شاعر کی صحبت میسر آگئی ہے جو جامعہ ساہیوال کے کنٹرولر امتحانات کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے۔مبشر سعید نئی نسل کے ان نمائندہ شعرائ کے ہراول دستے کے سرخیل کے طور پر ابھرے ہیں جن کی شعر فہمی نے انہیں ایک منفرد اسلوب کے حامل شاعر کا تشخص عطا کردیا ہے۔ یہ شہر ساہیوال اور اس کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعروں کی خوش نصیبی ہے کہ ملتانی مٹی کا یہ خوبصورت شاہکار شہر مجید امجد کی تزئین کاری میں اپنی شخصی و شعری جمالیات سے منیر نیازی کی خوبصورت شعری فضا کو فزوں تر کررہا ہے۔
کچھ برسوں سے مشاعرے کی تہذیبی روایت کو موقع پرست مشاعروں کی رنگ بازیوں نے زبردست نقصان پہنچایا جس کے سبب سنجیدہ شاعرمشاعروں سے دور ہوتے چلے گئے اور ٹک ٹاک شاعروں نے اچھے شعر کے طالب سامعین کو مشاعرے کے مستقبل سے مایوس کردیا۔ان حالات میں ضرورت تھی کہ کوئی اس کا نوٹس لے اور مشاعرے کی روایتی تہذیب کے احیائ کا بیڑہ اٹھائے۔حسن اتفاق سے شہر مجید امجد کی جامعہ ساہیوال کو پروفیسر ڈاکٹر جاوید اختر کی صورت میں ایسا درد دل رکھنے والا علم و ادب دوست میسر آگیا جس نے اس دانش گاہ کو صحیح معنوں میں گہوارہ? علم و ادب بنانے کا بیڑا اٹھایا تو خوش قسمتی نے انہیں مبشر سعید کی شکل میں ایک ایسا جواں سال شاعر عطا کردیا جو وائس چانسلر صاحب کے خواب کو شرمندہ? تعبیر کرنے میں کلیدی کردار بطریق احسن نبھانے کی اہلیت اور جذبہ رکھتا تھا۔سو مبشر سعید نے پروفیسر ڈاکٹر جاوید اختر کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی سے جامعہ کی دیگر اہم منصب دار ہستیوں کے تعاون سے جامعہ میں مجید امجد لٹریری سوسائٹی کے زیر اہتمام دو روازہ ادبی میلے کا اہتمام کیا ان صاحبان علم و فضل ہستیوں میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار شفیع ،ایڈیشنل رجسٹرار اصغر شاہ،ڈائریکٹر سٹیٹ ڈاکٹر اکرام ،پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر امین عابد ،ڈائریکٹر سٹوڈنٹ افیئرز ڈاکٹر وسیم طفیل، اور ڈاکٹر ایوب و دیگر شامل تھے۔
ادبی میلے کی خاص بات وہ مشاعرہ تھا جس کی صدارت کا شرف راقم کو سونپا گیا جبکہ مہمان خصوصی میں نامور شاعر قمر رضا شہزاد،انجم سلیمی،شاہین عباس،فیصل ہاشمی شامل تھے جبکہ نوجوان شعرائ میں ملک روشان الحق لنگڑیال اور مہر علی کے ساتھ دیگر نوجوان شعرا نے بھی اپنے معیاری اور خوبصورت کلام سے سماں باندھا جبکہ باذوق سامعین کی دا و تحسین نے چار چاند لگائے۔اس مشاعرے کی خاص بات ہی یہی تھی کہ نوجوان شعرائ کے خوبصورت اشعار پر باذوق سامعین کی داد کے ڈونگرے نہ صرف نئی نسل کے تخلیقی جوہر کو مہمیز کررہے تھے بلکہ سینر شعرائ کو شاعری کے تابناک مستقبل کی نوید سے بھی سرشار کئے دے رہے تھے اور یہ سب اس لئے تھا کہ مبشر سعید نے سستی شہرت اور پبلک ریلیشننگ کرنے کی بجائے جامعہ کی طرف سے مشاعرہ منعقد کرانے کے موقع کو مثبت انداز میں طلبہ کے ادبی ذوق کی تربیت کے لئے بطریق احسن اپنی جامعہ کی نیک نامی کے لئے استعمال کرکے ایک قابل تقلید مثال قائم کی۔