گوشہ تصوف …
ڈاکٹرپیرظہیرعبّاس قادری الرفاعی
drzaheerabbas1984@gm
ail.com
رحمتیں، برکتیں اور سعادتیں اہل اسلام سے چند دنوں کے فاصلے پر ہیں، گو اہل عقیدت اور اہل عشق پر برکتوں کا سائبان سارا سال سایہ فگن رکھتا ہے۔ تا ہم رمضان المبارک میں رحمتوں کی گھٹائیں جوبن پر ہوتی ہیں۔ ایک ایک دن ایک ایک ساعت برکتوں کی گھڑی لئے ایمان والوں کے دل پر دستک دیتی ہے۔ پورے ملک کی طرح وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے مضافات میں استقبال رمضان المبارک کے عدیم المثال نظاروں کو حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ سب سے زیادہ مراکز نگاہ مذہبی اور ارادت مندی کے مقامات ہیں۔ فیصل مسجد کی شان و حشمت مثالی نظر آتی ہے۔ ماہِ صیام کے حوالے سے مسجد انتظامیہ کے مشوروں اور رابطوں میں تیزی آ گئی ہے۔ بادشاہی مسجد، جامع مسجد میمن ، مسجد داتا دربار اور راولپنڈی کی موتی مسجد کی طرح اسلام آباد کی پرشکوہ شاہ فیصل مسجد میں بھی استقبال رمضان الکریم کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ اعتکاف بیٹھنے والے صاحبان کی درخواستیں اور ان سے جڑے امور طے کئے جا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کے ابتدائی عشرے میں تمام امور فائنل ہو جائیں گے۔ قوی امکان ہے کہ 24مارچ جمعۃ المبارک کو سعودی عرب میں پہلا روزہ ہو گا اور اگلے روز پاکستان سمیت بیشتر ممالک پہلی سحری کی خوشبو سے دامن میں بھریں گے ہر جگہ سحری اور افطاری کے دلنشیں مناظر کا اپنا انداز ہے مگر فیصل مسجد داتا دربار اور آستانہ بری امام سرکار میں خدمت کا انداز جداگانہ ہے۔…حضرت سلمان فارسی ?سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے شعبان کے آخری دن ہمیں خطاب فرمایا تو فرمایا اے لوگو!تم پر عظمت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے،یہ مہینہ برکت والا ہے جسکی ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے،وہ یہ مہینہ ہے جس کے روزے اللہ نے فرض کئے اور جسکی رات کا قیام نفل بنایا،جو اس ماہ میں نفلی بھلائی سے قرب الٰہی حاصل کرے تو گویا اس نے دوسرے مہینے میں فرض ادا کیا اور جو اس میں ایک فرض ادا کرے وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کئے،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا ثواب جنت ہے،یہ غربا کی غم خواری کا مہینہ ہے،یہ وہ مہینہ ہے جس میں مومن کا رزق بڑھایا جاتا ہے،جو اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے تو اس کے گناہوں کی بخشش اور آگ سے اس کی گردن کی آزادی ہوگی اور اسے روزہ دار کا سا ثواب ملے گا بغیر اسکے کہ روزہ دار کے ثواب سے کچھ کم ہو،ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ہم میں سے ہر شخص وہ نہیں پاتا جس سے روزہ افطار کرائے تو رسول اللہ نے فرمایا کہ اللہ یہ ثواب اسے دیگا جو روزہ دار کو ایک گھونٹ یا کھجور یا گھونٹ بھر پانی سے افطار کرائے اور جو روزہ دار کو سیر کرے اللہ اسے میرے حوض سے وہ پانی پلائے گا کہ کبھی پیاسا نہ ہو گا حتی کہ جنت میں داخل ہو جائے،یہ وہ مہینہ ہے جسکے اول میں رحمت، بیچ میں بخشش اور آخر میں آگ سے آزادی ہے اور جو اس مہینہ میں اپنے غلام سے تخفیف کرے تو اللہ اسے بخش دے گا اور آگ سے آزاد کر دیگا۔ ایک اور مقام پر ہے کہ حضور نبی کریم اس مبارک مہینے کو خوش آمدید کہہ کر اس کا استقبال فرماتے اور صحابہ کرام سے سوالیہ انداز میں تین بار دریافت کرتے:''کون تمہارا استقبال کر رہا ہے اور تم کس کا استقبال کر رہے ہو؟''حضرت عمر بن خطاب نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا کوئی وحی اترنے والی ہے؟ فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: کسی دشمن سے جنگ ہونے والی ہے؟ حضور نبی اکرم نے فرمایا: نہیں۔ عرض کیا: پھر کیا بات ہے؟ آپ نے فرمایا:''بے شک اللہ تعالیٰ رمضان کی پہلی رات ہی تمام اہلِ قبلہ کو بخش دیتا ہے۔رمضان میں عمرہ کی بھی بہت فضیلت ہے رسول کریم نے فرمایا جو مسلمان رمضان المبارک میں عمرہ کرے گویا کہ اس نے میرے ساتھ حج کیا(بخاری/رقم 117/10) اسی لئے اس سال رمضان میں عمرہ کی سعادت حاصل کروں گا اور حرمین شریفین سے آپ کیلئے لکھوں گا۔ا حادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مخصوص دنوں اور مہینوں کی عظمتوں و برکتوں کا تذکرہ کرنا، اہل اسلام کو ان خاص دنوں اور مہینوں کی عبادات کی ترغیب دینا اور تیاری کروانا بھی مستحسن ہے… نبی کریم نے فرمایا'' یعنی اے لوگو! تم پر عظمتوں والا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے،اس ارشاد گرامی میں بتایا گیا ہے کہ جس طرح درخت یا چھت انسان کو اپنے سایہ میں لیکر سورج کی گرمی سے بچاتے ہیں ایسے ہی رمضان شریف بھی بندہ مومن کو اپنے سایہ رحمت میں لیکر دنیا و آخرت کے عذاب سے بچا لیتا ہے،گویا کہ رمضان شریف اہل ایمان کیلئے رحمتوں اور برکتوں کا سائبان ہے جس خوش نصیب کویہ ماہ مبارک نصیب ہو جائے اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں،اور اس کا یہ بھی کمال ہے کہ یہ اہل ایمان کے پا س آکر رحمتیں اور برکتیں با نٹتا ہے جیسا کہ بادل آ کر برستا ہے اور ہر ایک کو سیراب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ مبین میں اس فرقان عظیم کی جو خصوصیات بیان فرمائی ہیں" قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھر پور کتاب ہے"۔ کوئی شک نہیں کہ قرآن ِ کے مطالعہ سے انسانی ذہن کو وہ تدبر اور وسعت حاصل ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ اپنے عہد کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 121 میں ارشاد ربانی ہے"جن لوگوں کو ہم نے یہ کتاب عنایت کی ہے وہ اس کو (ایسا)ہی پڑھتے ہیں جیسا کہ اس کوپڑھنے کا حق ہے یہ ہی لوگ اس پر ایمان رکھنے والے ہیں اور جو لوگ اس کو نہیں مانتے وہ خسارہ پانے والے ہیں۔"قرآن کریم سے منشائ الہٰی کے مطابق سبق حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ قرآن کی تلاوت اس کے پورے اہتمام کے ساتھ کی جائے۔قرآن فہمی کو عام کرنے میں ہماری مساجد کا اہم اور بنیادی کردار ہوسکتا ہے۔ جہاں ہونا یہ چایئے کہ قرآن کریم کی چند مخصوص آیات و سورہ مبارکہ کو ہر نماز میں دہرانے کی بجائے قرآن کی تمام آیات کی تلاوت کو معمول بنانے کے ساتھ ساتھ نمازباجماعت سے پہلے نماز میں پڑھی جانے والی آیات کا مفہوم بھی مختصرا بیان کیا جائے۔ یہ عام تجربہ ہے کہ جن آیات کے معنی و مفہوم سے ہم آشنائی رکھتے ہیں ان کی قرات سننے سے ہمارے قلوب و اذہان میں ایک منفرد سرور اور جذبے کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ قرآنی فکر کو نئی نسل کے اذہان میں منتقل کرنے کے لیے اربابِ اختیار کو چایئے کہ نصاب میں عربی کو لازمی مضمون کا درجہ قرار دیں۔ ہمیں بھی اپنے گھروں میں بچوں کو ترجمے کے ساتھ قرآن مجید پڑھانا چاہیے تاکہ ان میں قرآنی تعلیمات کو سمجھنے اور عمل کرنے کا شعور پیدا ہوسکے اور ایک باوقار اور پر اعتمادمستقبل کی بنیاد رکھی جاسکے۔ اقبال نے ایسی ہی صورتحال کے لیے تلقین کرتے ہوئے کہاتھا