بھارت سے بامعنی مذاکرات کیلئے پاکستان کی ہمہ وقت آمادگی


وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارت پر مذاکرات کیلئے سازگار ماحول بنانے پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے سنجیدہ حل کا خواہاں ہے۔ گزشتہ روز جاری کئے گئے اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بھارت مسئلہ کشمیر پر بات چیت سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کررہا ہے جبکہ بھارتی حکومت کشمیر کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کیلئے مختلف ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ انہوں نے افغانستان میں عدم تحفظ اور عدم استحکام کی صورتحال پر بھی تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ عالمی برادری افغانستان کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اسکی عبوری حکومت سے مذاکرات کرے اور افغانستان کی عبوری حکومت اس کیلئے ماحول سازگار بنائے۔ 
یہ امر واقعہ ہے کہ قیام پاکستان سے اب تک بھارت نے ایک اچھے ہمسائے کے طور پر پاکستان کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے اور باہمی تنازعات کے دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کیلئے سازگار ماحول بنانے کی کوشش نہیں کی۔ اسکے برعکس بھارت نے شروع دن سے ہی پاکستان کے ساتھ دشمنی والا راستہ اور رویہ اختیار کیا اور اپنے طے شدہ ایجنڈے کے مطابق پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف ہو گیا۔ اس نے پاکستان کی ایک آزاد مملکت کی حیثیت سے تشکیل بادل نخواستہ قبول تو کرلی مگر چونکہ قیام پاکستان کے باعث ہندو لیڈر شپ کے مہابھارت اور اس خطے میں توسیع پسندانہ عزائم پر زد پڑتی تھی اس لئے بھارت شروع دن سے ہی پاکستان کی سلامتی و خودمختاری کے درپے ہو گیا اور اپنا جنگی جنون بڑھانا شروع کر دیا۔ 
تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت آزاد ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق طے شدہ تھا مگر اس نے پاکستان پر آبی دہشت گردی کی نیت سے قیام پاکستان کے ساتھ ہی کشمیر میں اپنی افواج داخل کرکے اس پر اپنا جبری تسلط جمالیا اور پھر خود وادی¿ کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دے کر اسکے تصفیہ کیلئے اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا۔ چونکہ کشمیری عوام قیام پاکستان سے بھی قبل کشمیر کے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کر چکے تھے اس لئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کشمیری عوام کا خودارادیت کا حق تسلیم کیا اور بھارت کی پیش کردہ قرارداد پر اسے اپنے زیرقبضہ کشمیر میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی جس کی نگرانی کیلئے اقوام متحدہ نے اپنے نمائندے کا تقرر بھی کردیا مگر بھارت کشمیری عوام کی طے شدہ رائے کو بھانپ کر استصواب سے بھاگ گیا۔ یواین جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کیلئے درجن بھر قراردادیں منظور کیں مگر بھارت ٹس سے مس نہ ہوا اور اسکے برعکس اس نے اپنے آئین میں ترمیم کرکے کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دی اور اسے بھارتی سٹیٹ یونین کی ایک ریاست کا درجہ دے دیا جسے بھارتی لیڈر شپ اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے لگی۔ 
پاکستان نے یہ بھارتی ہٹ دھرمی شروع دن سے ہی قبول نہیں کی اور عالمی اور علاقائی فورموں پر کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے آواز اٹھانا شروع کر دی۔ پاکستان کا شروع دن سے آج تک یہی اصولی اور اٹل موقف ہے کہ کشمیر کے مستقبل کا تعین خود کشمیری عوام نے کرنا ہے اس لئے ان کا استصواب کا حق تسلیم کیا جائے۔ پاکستان کے اس ٹھوس موقف کے برخلاف بھارت کی ہندو لیڈر شپ نے پاکستان کی سلامتی تاراج کرنے کی سازشوں کا آغاز کیا اور 1948ءسے 1971ءتک اس پر تین جنگیں مسلط کیں۔ 1971ءکی جنگ کے دوران اس نے اپنی ساختہ عسکری تنظیم مکتی باہنی کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستان کو سانحہ¿ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کیا جس کے بعد اس نے باقیماندہ پاکستان کی سلامتی بھی کمزور کرنے کی نیت سے خود کو ایٹمی قوت بنایا اور ساتھ ہی کشمیر کے راستے پاکستان آنیوالے دریاﺅں پر اپنا تسلط جما کر پاکستان کیخلاف آبی دہشت گردی کا ارتکاب بھی شروع کر دیا۔ 
یہ صورتحال عالمی برادری کیلئے چشم کشا ہونی چاہیے کہ بھارت نے کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادیں غیرمو¿ثر بنانے کیلئے پاکستان کے ساتھ 1974ءمیں شملہ معاہدہ کیا جس کے تحت پاکستان بھارت باہمی تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیا گیا مگر بھارت نے دوطرفہ مذاکرات کی آج تک نوبت ہی نہیں آنے دی اور جس بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات کا کبھی آغاز ہوتا تو کشمیر کا ذکر آتے ہی بھارت مذاکرات کی میز رعونت کے ساتھ الٹا دیتا۔ نریندر مودی کے مکتی باہنی کے فعال رکن ہونے کے ناطے بھارت کی مودی سرکار تو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اس عسکری تنظیم کے ایجنڈے پر ہی کاربند ہے جسے ہندو انتہاءپسند تنظیموں بشمول راشٹریہ سیوک سنگھ (آرایس ایس) کی بھرپور معاونت حاصل ہے اس لئے بھارتی سیکولر سٹیٹ کو خالصتاً ہندو ریاست میں تبدیل کرنے والی مودی سرکار کا آج بنیادی ایجنڈا ہی پاکستان کی سلامتی پر شب خون مارنے کا ہے جس کیلئے بھارت نے پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے بھی اسے سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی سازشوں کے جال پھیلا رکھے ہیں جبکہ وہ امریکہ اور اپنے حلیف دوسرے مغربی یورپی ممالک کی معاونت سے اپنی جنگی استعداد بڑھانے کی کوششوں میں ہمہ وقت مگن ہے۔ بھارت کا ساڑھے آٹھ ارب ڈالر کا جنگی سازوسامان خریدنے کا حالیہ منصوبہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس کیلئے تمام آرڈر بھارتی کمپنیوں کو دینے کی بھی بھارتی لوک سبھا سے منظوری لے لی گئی ہے۔ کشمیر پر اٹوٹ انگ والی بھارتی ہٹ دھرمی کو آئینی تحفظ دینے کیلئے مودی سرکار نے اپنے پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے تحت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی اور اسے دو حصوں میں تقسیم کرکے بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا گیا جبکہ اس جبری ہتھکنڈے کیخلاف کشمیریوں کی آواز دبانے کیلئے انہیں گھروں میں محصور کرکے انہیں مواصلات کے تمام ذرائع اور انٹرنیٹ کی سہولتوں سے محروم کردیا گیا تاکہ وہ بھارتی فوجوں کے مظالم سے عالمی برادری کو آگاہ نہ کرسکیں۔ 
اس بھارتی اقدام کیخلاف دنیا بھر میں احتجاج ہوا۔ سلامتی کونسل‘ یورپی یونین اور برطانوی پارلیمنٹ نے قراردادیں بھی منظور کیں مگر مقبوضہ وادی میں مودی سرکار نے اپنا جبر و تسلط برقرار رکھا ہوا ہے اور کشمیری عوام گزشتہ تقریباً چار سال سے اپنے گھروں میں محصور ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ بھارت کے جنگی توسیع پسندانہ عزائم سے ہی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو خطرہ لاحق ہے جو 26 فروری 2019ءجیسی جنگی جنونیت کے ذریعے پاکستان کی سلامتی اور خودمختاری چیلنج کرتا رہتا ہے تو پاکستان بھی دفاع وطن کی خاطر اپنی جنگی استعداد بڑھانے اور اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو مزید مضبوط بنانے پر مجبور ہے۔ اس تناظر میں اگر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مقصود ہے تو انہیں بھارت کے جنگی عزائم کو لگام دینا اور اسے مسئلہ کشمیر سمیت تمام دیرینہ تنازعات کے حل کیلئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کرنا ہوگا جس کیلئے پاکستان ہمہ وقت تیار ہے۔ بصورت دیگر پاکستان کو اپنے تحفظ و دفاع کیلئے کوئی بھی قدم اٹھانے کا پورا حق حاصل ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن