پتنگ بازی۔ایک معاشرتی برائی

Mar 19, 2023

اسلم صابر


پچھلے دنوں راولپنڈی میں حکومتی پابندی کے باوجود نام نہاد بسنت دھڑلے سے منائی گئی۔ بسنت کیا تھی پتنگوں اور ہوائی فائرنگ کا ایک طوفان بدتمیزی تھا۔ اکا دکا گرفتاریوں کے سوا پولیس کی کوئی خاطر خواہ کاروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔ بے گناہ لوگ زخمی اور ہلاک ہوتے رہے۔ 
پتنگ بازی سے ہونے والے مالی اور جانی نقصانات بے تحاشا ہیں۔ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ پائی پائی جمع کرکے کچھ ضروریات زندگی از قسم ریفریجریٹر ، ٹی وی، اوون، اے سی وغیرہ خریدتے ہیں۔ دھاتی ڈور بجلی کے تاروں پر گرنے سے بجلی کی بار بار ٹرپنگ ہوتی ہے جس سے یہ برقی اشیا جل جاتی ہیں۔ واپڈا کی تنصیبات کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچتا ہے۔ گھروں ، دفتروں اور کارخانوں میں بجلی کے بار بار فیل ہونے سے لوگوں کو پہنچنے والی اذیت اور کوفت کے علاوہ کام کا بے تحاشا حرج ہوتا ہے جس کا مجموعی اثر ملکی ترقی پر پڑتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے نتیجے میں ہر سال بہت سے بے گناہ اور غیر شریک لوگ زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں یا عمر بھر کے لئے معذور ہو جاتے ہیں۔ موٹر سائیکل سوار حضرات خصوصاََ بچے اس کا زیادہ نشانہ بنتے ہیں۔ وہ مناظر کتنے دلدوز ہوتے ہیں جب بائیک کے آگے بیٹھے ننھے منے بچوں کے گلے میں ڈور پھرنے سے وہ اپنے باپ کے ہاتھوں میں تڑپ تڑپ کر اور بعض اوقات تو صرف لڑھک کر جان دے دیتے ہیں۔ بڑے دکھ کی بات ہے کہ ہمارے بہت سے حکومتی اہل کار اور ذرائع ابلاغ پتنگ بازی کو کھیل کا نام دیتے ہیں۔ یہ بڑی بھول ہے۔ آئیے دیکھیں کہ کھیل کسے کہتے ہیں:
۔ کھیل وہ ہوتا ہے جس کے پہلے سے طے شدہ قوائدوضوابط ہوں اور ان کی پابندی کروانے کے لئے کوئی ریفری یا ایمپائر مقرر ہو۔ 
- کھیل میں شریک تمام افراد یا ٹیموں کو مقررہ وقت کے اندر پرفارم کرنا ہوتا ہے۔ 
- کھیل میں fitness physical قائم ہوتی ہوتی ہے۔ 
- کھیل میں کسی کی دل آزاری نہیں ہوتی۔ 
- کھیلوں کے شائقین اپنی اپنی پسند کے مطابق کھیل کے میدان میں جاکر کھیل کو انجوائے کرتے ہیں، کسی کے لئے کوئی مجبوری نہیں ہوتی۔ 
- کھیل خوشگوار اور خطرناک بھی ہوتے ہیں، بعض تو انتہائی خطرناک جیسے ب±ل فائٹنگ اور باکسنگ وغیرہ۔ ان میں جانی نقصان کا بہت خطرہ ہوتا ہے۔ مگر ان میں شریک ٹیمیں، افراد یا تماشائی اپنی رضاورغبت سے ان خطرات کے لئے ذہنی طور پر تیار اور آمادہ ہوتے ہیں۔ 
- کسی بھی کھیل سے کسی معصوم اور غیر شریک شخص کو کسی جانی و مالی نقصان کا خطرہ نہیں ہوتا۔ 
مندرجہ بالا حقائق کی روشنی نیں غور کیا جائے تو پتنگ بازی کسی طورپر بھی کھیل کے زمرے نہیں آتی۔ سب سے پہلے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسے کھیل کہنا، کھیل سمجھنا اور کھیل کے طور پر لینا بند کردینا چاہئے۔ یہ کھیل ہر گز نہیں ہے۔ یہ ایک تماش بینی اور معاشرتی برائی ہے اور اپنے جیسی دوسری برائیوں مثلاً کبوتر بازی ، آتش بازی ، یہ بازی وہ بازی وغیرہ کی بہن ہے۔ 
اس برائی میں نہ صرف پتنگ بازی کرنے والے اپنی ذہنی و جسمانی صحت، دولت اور وقت کا ضیاع کرتے ہیں بلکہ بے گناہ غیر شریک لوگوں کی موت کا سبب اور ان کے آرام میں خلل کا باعث بنتے ہیں۔ پتنگ بازوں کا غل غباڑہ مریضوں، طالب علموں اور عبادت گزاروں کے لئے سوہان روح ہے۔ ملک اور عوام الناس کا بے پناہ مالی و جانی نقصان ہوتا ہے۔ 
کوئی ایک ڈیڑھ دہائی پہلے تک پتنگ بازی کو عام لوگوں کی سطح سے اٹھا کر حکومتی در پرستی بخشی گئی۔ بس پھر کیا ہر چیز کنٹرول سے باہر ہوتی گئی۔ چھتوں پر پتنگ بازی کے شوق خانہ خراب کے ساتھ ساتھ کلاشنکوفی ہوائی فائرنگ کا سلسلہ پروان چڑھا۔ نتیجتاً سڑکیں اور گلیاں خون رنگ ہونے لگیں۔کیوں نہ ہوتیں ، سرکاری سرپرستی جو تھی۔ یاد رکھیں اچھے کاموں اور اچھی تعلیم کو پھیلانے کیلئے اساتذہ شب وروز محنت کرتے ہیں لیکن ان کے پھیلاو¿ میں پھر بھی وسعت نہیں آتی۔دوسری طرف برائی بغیر استاد کے پھیلتی ہے۔ قاری صاحبان روز بچوں کو قرآنی آیات کا رٹا لگواتے ہیں تو بچے بڑی مشکل سے اسے پڑھنے کے قابل ہوتے ہیں مگر وہ نت نئی گالیاں بغیر کسی استاد کے سیکھتے رہتے ہیں۔ پتنگ بازی کے شغل بد کا بھی یہی حال ہے۔یہ ازخود برائی توہے ہی ہے لیکن جب سے اسے “اساتذہ” ملے ہیں وہ بھی سونے پہ سہاگہ کے مصداق حکومتی سطح پر، تب سے اس کے فروغ نے عوام الناس کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ خرابیءبسیار کے بعد اس کار بد پر پابندی تو لگادی گئی مگر پابندی کی خلاف ورزی پر ناکافی سزاو¿ں اور کمزور انتظامی کاروائیوں کی وجہ سے اس کا سلسلہ نہ رک سکا۔
عوام کے جان و مال کا تحفظ، حادثات کی روک تھام اور مالی نقصانات سے بچنے کےلئے اگر حکومت کو کوئی فیصلہ کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ اس شغل بد پر لگی پابندی پرکماحقہ± عمل درآمد کیا جائے۔ اگر انتظامیہ VIPs کے لئے راستے بلاک کر سکتی ہے، ممکنہ دہشت گردی کو روکنے کے لئے موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی عائد کرسکتی ہے، موٹر سائیکل والوں کو دماغ پگھلادینے والی گرمی میں ہیلمٹ پہنوا سکتی ہے، گاڑیوں میں سیٹ بیلٹ پہننے کی پابندی کروا سکتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پتنگ بازی کے ناسور کو ختم نہ کیا جا سکے۔ بات ارادے اور عمل کی ہے۔ 

مزیدخبریں