رہنماﺅں کو راہنمائی کی ضرورت ہے


 ویسے تو توشہ خانہ بھی اب پینڈورہ باکس بن چکا ہے اور نجانے مستقبل میں اس پر اسرار خانے سے کیا کچھ نکلے گا لیکن اس وقت توشہ خانہ کیس سامنے ہے جس میں تحریک انصاف کے چیرمین ہزار خرابی کے بعد اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوگئے ۔عدالتوںمیں جانے اور فیصلوں کے احترام کے حوالے سے سب کی بظاہر رائے ایک ہے لیکن اس سارے معاملے کو جس طرح سیاست کی نذر کیا گیا اور فریقین کی طرف سے اپنی جگہ سے ہٹکر جس طرح کھیلا گیا اسے ساری قوم نے دیکھا ہے۔ اس طرح جو نقصان ہوا ایک مقروض ملک کا پیسہ جس طرح بربادکیا گیا جس طرح قانون کا حلیہ بگاڑا گیا جس طرح معمول کے کام کو غیر معمولی طریقے سے نمٹانے کی کوشش کی گئی اس کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے ۔
اس قوم میں ہے شوخیءاندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
مجموعی طورپر جمہوریت کے عمل کو اس سارے کھیل سے بہت نقصان پہنچا ہے۔صاف دکھائی دے رہا ہے ہمارے سیاستدانوں کی باہمی چپقلش نے ماضی سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور آئیندہ بھی کوئی سیکھنے کوتیار نہیں ۔ان کی حالت اب یہ ہے کہ
دل بھی اک ضد پہ اڑا ہے کسی بچے کی طرح
یا توسب کچھ ہی اسے چاہئیے یا کچھ بھی نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کام متعلقہ انتظامیہ کی نا اہلی یا کسی واردات کی وجہ سے رکنے لگ جائیں تو اندازہ ہونے لگتا ہے کہ اس انتظامیہ کو کنٹرول کرنے والے وزرا کیسے قابل لوگ ہیں ۔گزشتہ دو تین برسوں سے ایک چھوٹا سا عوامی مسئلہ عام شہریوں کے لئے درد سر بنا رہا ہے۔چھوٹا سا مسئلہ یعنی موٹر سائیکل کار وغیرہ خرید کر اس کی نمبر پلیٹوںکے حصول کا مسئلہ ۔ حکومت نے اعلان کیا کہ نمبر پلیٹ نمونہ کے مطابق ہو اس کی فیس پہلے جمع کروائی جائے اس نمبر پلیٹ کے بغیر کوئی گاڑی سڑک پر نہ آئے ۔ یہ سب احکامات چونکہ حکومت اور ریاست کے ہیں تو ان پر عمل درامد کے لئے شہریوں نے اپنے فرائض ادا کر دئے لیکن اس اہم کام کی جو ذمہ داری حکومت کی تھی وہ پوری نہیںہوئی توانگلی کس پراٹھے گی ۔ اب حال یہ ہے کہ سڑکیں نمبر پلیٹوں کے حوالے سے چوں چوں کا مربہ بنی ہوئی ہیں لیکن ایک اچھے منصوبے کو بحران کی شکل دینے والے کسی فرد کے خلاف اس طرح کی کاروائی نہیںہوئی جونظر آتی اور دوسروںکے لئے نشان عبرت بنتی اب حال ہے کہ محتسب پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان نے محکمہ ایکسائز و ٹیکسیشن اور نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن کو ہدایت کی ہے کہ عوام کو گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کی ضلعی سطح پر ترسیل کیلئے قابل عمل اور منظم طریقہ کار وضع کیا جائے کیونکہ نمبر پلیٹس کے اجرائ کا موجودہ طریقہ کار سست روی کا شکار ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے محکمہ ایکسائز کو ہدایت کی ہے کہ نمبر پلیٹس کے اجرائ اور عوام کو فراہمی کی بابت رپورٹ دفتر محتسب پنجاب کو ہر ماہ پیش کی جائے ۔دفتر محتسب پنجاب کے ترجمان نے ایک بیان میں بتایا کہ گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے اجرائ اور فراہمی میں غیرضروری تاخیر سے عوام کو درپیش مسائل کے حوالے سے دفتر محتسب پنجاب کو موصولہ شکایات اور اخبارات میں شائع خبروں پر نوٹس لیتے ہوئے صوبائی محتسب نے سیکرٹری محکمہ ایکسائز سے رپورٹ طلب کی کہ فیس کی ادائیگی کے باوجود گاڑی مالکان کو گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کیونکر مہیا نہیں کی جا رہی ہیں؟ اس حوالے سے محکمہ ایکسائز کی جانب سے دفتر محتسب پنجاب کو بس مطلع کیا گیا ہے کہ ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کارپوریشن سے گاڑیوں کی نمبر پلیٹس کے اجرائکیلئے 2020 میں معاہدہ کیا اور ابتدائی طور پر 20 لاکھ نمبر پلیٹس کی فراہمی کا پرچیز آرڈر جاری کیا۔ مگر یہ نہیں بتایا کہ نمبر پلیٹوں کی تیاری اور ترسیل کے حوالے سے غفلت پرکیا تادیبی کاروائی ہوئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیپلز پارٹی لاہور کے رہنما عاقب سرور نے کہا ہے کہ چیئرمین بیت المال شوکت پراچہ کی ذاتی دلچسپی اور کاوشوں کے باعث لاہور سے پارٹی کے ضرورت مند خاندانوں اور معذور افراد کو شادی تعلیم صحت اور دیگر شعبوں کے لیے امدادی چیکس ترجیحی بنیادوں پر دئیے جا رہے ہیں اور اصل میں پاکستان بیت المال، پیپلز پارٹی کے منشور پر عمل درآمد کروا رہا ہے ۔اپنے ایک بیان میں انہوں نے چیئرمین بیت المال کی طرف سے بیواﺅں اور خصوصی طور پر معذور کیلیے کیے گئے اقدامات کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم لاہور میں پارٹی منشور روٹی ،کپڑا اور مکان کو سامنے رکھ کے کارکنوں کے مسائل حل کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چیئرپرسن بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شازیہ عطا مری اور وزیر مملکت فیصل کنڈی کی طرف سے مستحقین کے لیے اٹھائے گئے اقدامات پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی طرف سے صوبائی دارالحکومت لاہورکے جیالوں کے لیے ایک مخلص اور سرگرم پارٹی کارکن کو اعزازی صوبائی کوآرڈینیٹر مقرر کیا جائے تاکہ کارکنوں کے روزمرہ کے مسائل جلد از جلد حل کروائے جا سکیں۔اصولی طورپر ریاستی فلاحی اداروں کے دروازے سیاسی تقسیم سے ہٹ کر تمام ضرورت مندوں کے لئےکھلے رہنے ضروری ہیں ۔ پیپلز پارٹی کے راہنما نہ جائے کیوں یہ تاثر دے رہے ہیںکہ بیت المال کے چیئرمین صرف پی پی پی کے ضرورت مندوں کےلئے کھلے رکھنے ضروری ہیں۔ شائد انتخابات کو سامنے دیکھ کر روائتی سیاست کے حربے آزمائے جا رہے ہیں المیہ یہ بھی ہے کہ ۔
کچھ پرندوں کو تو بس دو چار دانے چاہئیں
کچھ کو لیکن آسمانوں کے خزانے چاہئیں 
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن