ارشاد احمد ارشد
رمضان اور قرآن مجید کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کو اللہ نے اپنی کتاب مقدس میں ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے، ’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نازل کیا گیا ہے‘ یعنی رمضان نزول قرآن کا مہینہ ہے۔ رمضان کے مہینے میں جبرائیل علیہ السلام تشریف لاتے اور رسول مقبولﷺ کے ساتھ قرآن مجید کا دور کرتے تھے۔ دور کا مطلب ہے کہ رسول مقبولﷺ سے قرآن مجید سنتے تھے۔یہ کتاب انسانوں کے لیے ہدایت اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر سمجھانے والی ہے۔ قرآن مجید جس دور میں اتارا گیا یہ وہ دور تھا جب انسانیت سسک رہی تھی اور دم توڑ چکی تھی۔ انسان اپنے مقام اور احترام کو بھول چکا تھ، روح کی بیماریوں نے اولادِ آدم کو مایوس کر دیا تھا۔چنانچہ روحانی وجود کے ارتقا ، احیا اور اخلاق وکردار کی تندرسی اور تازگی کے لیے قرآ ن پاک نسخہ ِ شفا بنا کر نازل گیا۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ قرآن مجید محض صفحات پر لکھی ہوئی اور دو گتوں کے درمیان جلد کی ہوئی کتاب نہیں بلکہ یہ زندہ کتاب ہے، یہ ایمان وہدایت اور عمل ویقین کا منبع وسرچشمہ ہے۔ یہ ایسی بابرکت اور مقدس کتاب ہے کہ جولوگ اس کے ساتھ جڑجائیں ، اسے اپنے دلوں میں اتار لیں اور اس پر عمل پیرا ہوجائیں تو اس کی برکت سے وہ بھی انسانیت کے مقام ومرتبہ پر فائز ہوجاتے ہیں۔
قرآن مجید کے ساتھ ایمان اور یقین کا رشتہ استوار کرنے والوں میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید کا بھی خاندان ہے۔قرآن مجید کی بدولت علامہ شہید اور ان کے خاندان کو جو عزت اور شہرت ملی اس پر ’ایں خانہ ہمہ آفتاب است‘ کا پوری طرح انطباق ہوتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ گھرانہ جس کی ہر بات مثالی ہو، وہ گھرانہ جس کا ہر فرد ذہین و فطین ہو ، اور وہ گھرانہ جس کا ہر فرد آفتاب کی طرح روشن ہو۔بلاشبہ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ کا خاندان انھی صفات اور خوبیوں کا حامل ہے۔یہ خاندان علم تقوی ، دیانت فہم وفراست ، جرا¿ت وبہادری اور حق گوئی وبیباکی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اسی خاندان کے ایک ہونہار فرزند ڈاکٹر سبیل اکرام ہیں جو علامہ شہید کے نواسے ہیں۔ ڈاکٹر سبیل اکرام جہاں ایک کامیاب کاروباری انسان ہیں وہیں وہ اعلیٰ پائے کے قاری قرآن بھی ہیں۔ ان کے والد ڈاکٹر اکرام سعودی عرب میں طویل عرصہ تک طبی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔سبیل اکرام پانچویں کلاس میں تھے کہ ان کے والدین نے اپنی خاندانی روایات کے مطابق انھیں قرآن مجید حفظ کروانے کا فیصلہ کرلیا۔والدین کی کوششیں ، محنتیں ، محبتیں اور دعائیں رنگ لائیں کہ انھوں نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں قاری ارشد قاسمی سے محض دس ماہ کی قلیل مدت میں قرآن مجید حفظ کرلیا۔ حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ مند ہونے کے بعد والدین نے اپنے بچے کو دوبارہ دنیوی تعلیم کے لیے سکول میں داخل کروادیا یہاں تک کہ وہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن گئے۔
آج ڈاکٹر سبیل اکرام ایک کامیاب انسان، معروف بلڈرز اور قاری قرآن کی حیثیت سے دنیا بھر میں معروف ہیں۔ وہ شیریں آوازاور وجد آفریں لہجہ کے حامل ہیں وہ جب خوبصورت آواز میں قرآن مجیدپڑھتے ہیں تو سننے والوں پر رقت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ مسلسل 23برس سے نماز تراویح پڑھا رہے ہیں۔ سب سے پہلے انھوں نے ریاض میں ہی تراویح پڑھائیں ، اس کے بعد کراچی میں نماز تروایح کی امامت کرتے رہے پھر وہ کئی سال تک مرکز قرآن وسنہ لاہور میں بھی نماز تراویح پڑھاتے رہے ہیں جہاں ان کی اقتدا میں نماز اداکرنے کے لیے روزانہ ہزاروں اہل ایمان ویقین آتے تھے۔اب وہ پاکستان کی تیسری بڑی مسجد بحریہ ٹاو¿ن لاہور میں نماز تراویح پڑھائیں گے اور اس وسیع ترین ، خوبصورت مسجد کے درودیوار اور منبر ومحراب ان کی مسحور کن آواز سے گونجیں گے۔
ڈاکٹر سبیل اکرام کہتے ہیں، دس ماہ کے مختصر وقت میں قرآن مجید حفظ کرلینا میرے والدین کی محنت اور دعاو¿ں کا نتیجہ ہے۔ والد سفر میں ہوتے تو وہ گاڑی میں قرآن مجید کی تلاوت لگاتے، گھر آتے تو والدہ مجھ سے قرآن مجید سنا کرتی تھیں۔جو والدین اپنے بچوں کو قرآن مجید حفظ کروانا چاہتے ہیں میں ان سے کہوں گا کہ وہ سب سے اپنا تعلق قرآن مجید سے مضبوط کریں ، گھر کا ماحول قرآن کے تقاضوں کے مطابق درست کریں۔ وہ قرائے کرام جو رمضان المبارک میں نماز تراویح پڑھاتے ہیں میں ان سے کہوں گا کہ وہ قرآن مجید کے معانی ومفہوم کو ضرور سمجھیں۔ جب وہ معانی ومفہوم کو سمجھتے ہوئے قرآن مجید پڑھیں گے تو ان کے لہجہ میں خود بخود خشیت آجائے گی جو سننے والوں پر رقت طاری کردے گی اس طرح سے تلاوت سننے والوں کے دل نرم ہوتے چلے جائیں گے۔سیدنا عمر فاروقؓ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح قرآن مجید کی چند آیات سننے سے ان کے دل کی دنیا بدل گئی تھی۔ قرآن مجید تو ہم بھی سنتے سناتے ہیں لیکن ہمارے دل ودماغ اس لیے نہیں بدلتے کہ ہم قرآن مجید کے معانی ومفہوم کو نہیں سمجھتے۔
مسلمان ہونے کے ناتے ہمارے لیے یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ قرآن مجید کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ اللہ کی ذات جس قدر عظیم و خبیر ہے اسی قدر کتاب اللہ کے مسلمانوں پر حقوق ہیں،لہٰذا کتاب اللہ کا ایک حق یہ ہے کہ اسے خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھاجائے، دوسرا حق یہ ہے کہ اس کو سمجھا جائے ،اس پر دل وجان سے عمل کیا جائے،تیسرا حق یہ ہے کہ اس کو آگے پھیلایا جائے اور دنیا میں اس کا نفاذ کیا جائے۔جس طر ح قرآن مجید کو سمجھنا اوراس پر عمل کرنا باعث ثواب و نجات ہے ایسے ہی اس کتاب مقدس کو ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا بھی باعث ثواب ہے۔ میرا اس بات پر یقین اور ایمان ہے کہ جو شخص اللہ سے اور قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کرلے اللہ اسے کامیابیوں سے نوازتا ہے۔ بے پناہ مصروفیات کے باوجود قرآن مجید اس لیے یاد ہے کہ عام حالات میں بھی میں قرآن مجید سے تعلق قائم رکھتا ہوں، مطلب یہ ہے کہ سفر میں ہوں یا حضر میں قرآن مجید پڑھتا رہتا ہوں جبکہ ماہ رمضان میں مکمل طور پر خود کو قرآن کے لیے وقف کردیتاہوں اور تمام کاروباری مصروفیات ترک کردیتاہوں، اللہ سے عہد کیا ہواہے کہ ایک مہینہ اس کی راہ میں گزارناہے۔